خدا کا وجود

( یہ تقریر انگریزی زبان میں 9  مئی 2009  کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر ،نئی دہلی، میں کی گئی تھی)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے— خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طورپر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اِس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طورپر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity) آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے اِس عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کو پڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین علمی شعبوں سے تعلق رکھتا ہے— فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہاں میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعے کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا  — میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں:

I think, therefore I am.

ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے بھی قابلِ انطباق (applicable)ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا  — انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابلِ فہم بناتاہے:

Existence of man makes the existence of God understandable.

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میںنے کہا — میرا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:

I am, therefore God is.

فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طورپر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگر چہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ اسپرٹ (world spirit)  کا نام دیا، وغیرہ۔

اِس کے بعد میںنے چاہا کہ میں سائنسی طریقِ استدلال (scientific method) کے ذریعے اِس معاملے کی تحقیق کروں۔سائنسی مطالعے میں جو مسلّمہ طریقہ ہے، وہ مشاہدات پر مبنی طریقہ ہے۔ مگر اس مشاہداتی استدلال (observational argument) کے دو دورہیں۔ سائنس کا مطالعہ جب تک عالم ِکبیر (macro world)  تک محدود تھا، اُس وقت تک استدلال کا صرف ایک طریقہ رائج تھا، یعنی آرگومینٹ فرام سین ٹو سین (argument from seen to seen)کا اصول ۔ لیکن جب سائنس کا مطالعاتی سفر عالم ِصغیر (micro world) تک پہنچ گیا تو اِس استدلال میں ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ پہلے اگر مشاہداتی استدلال (observational argument) کو درست مانا جاتا تھا، تو اب استنباطی استدلال (inferential argument)کو بھی یکساں طورپر درست (valid) مانا جانے لگا، یعنی اب آرگومینٹ فرام سین ٹو اَن سین (argument from seen to unseen) کا اصول بھی درست استدلال کی حیثیت سے تسلیم کرلیاگیا۔ اِن دونوں طریقوں کو فنی زبان میں اِس طرح بیان کیا جاسکتاہے:

1. Observation, hypothesis, verification

2. Hypothesis, observation, verification

ایک سادہ مثال سے اس معاملے کی عملی وضاحت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ سیب کو شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کہتے ہیں— دو سیب جمع دو سیب، برابر چار سیب۔ یہ مشاہداتی استدلال کی ایک مثال ہے۔ دوسرے استدلال کی مثال یہ ہے کہ نیوٹن (وفات1727) نے دیکھا کہ ایک سیب درخت سے گر کر نیچے آیا۔ یہ ایک مشاہدہ تھا۔ اُس نے سوچنا شروع کیا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر اوپر کیوں نہیں گیا، وہ نیچے کیوں آگیا۔ اِس سوچ کے بعد وہ ایک استنباط تک پہنچا، وہ یہ کہ زمین میں قوتِ کشش ہے۔ اِس کے بعد اس نے دوسرے متعلق شواہد (relevant data) کا جائزہ لیا تو اِس بات کی تصدیق ہوگئی کہ اس کا استنباط درست (valid)تھا۔

سائنسی متھڈالوجی کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ مشہور برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات1970) کی کتاب ہیومن نالج (Human Knowledge) ہے۔ اِس کتاب میں مصنف نے بتایا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں— چیزوں کا علم، سچائیوں کا علم:

Knowledge of things, knowledge of truths

چیزوں کی دریافت میں مشاہداتی طریقِ استدلال کار آمد ہے، لیکن خدا کے وجود کا معاملہ سچائی کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس لیے اس معاملے میں وہی استدلال قابل انطباق ہے، جس کو استنباطی استدلال (inferential argument) کہاجاتاہے۔

غالباً 1965 کی بات ہے، میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے ہوئی۔ وہ فلسفہ کے پروفیسر تھے۔اُن سے خدا کے وجود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھو ںنے ایک سوال کیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے:

What criterion do you have to prove the existence of God.

میں نے جواب دیا — وہی کرائٹیرین جو آپ کے پاس اِس نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے ہو:

Same criterion that you have to prove anything else.

اِس کے بعد میں نے اُن کے سامنے مذکورہ طریق ِاستدلال کی وضاحت کی۔ میں نے کہا کہ خدا کے وجود کا معاملہ سچائی (truth) کے موضوع سے تعلق رکھتاہے۔ آپ سچائی کی نوعیت کی کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے جس کرائٹیرین کو استعمال کرتے ہیں، اُسی کرائٹیرین کو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کیجیے، اور پھر آپ جان لیںگے کہ خدا کا وجود بھی اُسی علمی معیار سے ثابت ہوتاہے، جس علمی معیار سے اِس نوعیت کی دوسری چیزیں ثابت ہورہی ہیں۔

سنجیدہ اہلِ علم نے اِس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ مثلاً معروف فلسفی، مفکّر برٹرینڈ رسل (1872-1970) نے اعتراف کیا ہے کہ تھیالوجین عام طورپر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہا جاتا ہے۔ برٹرینڈ رسل کے مطابق، یہ طریقہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پورے معنوں میں سائنسی منطق (scientific  logic) پر مبنی ہے۔ اِس لیے یہ استدلال اصولی طورپر اتنا ہی حقیقی ہے، جتنا کہ کوئی دوسرا سائنسی استدلال۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے:

Where there is design, there is designer and when designer is proved, the existence of God is also proved.

اشیا کا سائنسی مطالعہ 1609 میں شروع ہوا ، جب کہ اطالوی سائنس داں گلیلیوگلیلی (وفات 1642) نے ابتدائی دور بین (telescope) کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بینی مشاہدے(observation) میں مزید ترقی ہوئی، یہاں تک کہ 1949 میں پیلومر آبزرویٹری (Palomar Observatory) کیلی فورنیا قائم ہوئی، جس کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر آسمانی مشاہدہ ممکن ہوگیا۔ اِس کے بعد الیکٹرانک دور بین ایجاد ہوئی جس کو 1990 میں امریکا کی ہبل آبزرویٹری میں نصب کیا گیا۔

اِس قسم کے مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ تقریباً 13.8 بلین سال پہلے خلا میں بگ بینگ کا واقعہ ہوا جس کے بعد ستاروں اور سیاروں کی موجودہ دنیا وجود میں آئی۔ اِس کے بعد تقریباً ایک بلین سال پہلے لٹل بینگ (little bang) ہوا جس کے ذریعے موجودہ شمسی نظام (solar system) وجود میںآیا۔ اس کے بعد سیارۂ ارض پر واٹر بینگ (water bang) ہوا اور زمین پانی سے بھر گئی۔ اس کے بعد زندگی اور زندگی سے متعلق تمام چیزیں پیدا ہوئیں۔

بولٹز من (Ludwig Eduard Boltzmann, 1844-1906)  ایک آسٹرین سائنس داں ہے۔ اس نے اِن کائناتی حقیقتوں(signs)کو دیکھ کر کہا تھا— کیا یہ خدا تھا، جس نے ان نشانیوں کو لکھا، جو میرے ارد گرد کے نیچر کی پر اسرار اور پوشیدہ فورسز کو ظاہر کرتی ہیں، جو میرے دل میںمسرت اور خوشی کی لہر پیدا کردیتی ہے:

Was it a God that wrote these signs, revealing the hidden and mysterious forces of nature around me, which fill my heart with quiet joy?

(www.eoht.info/page/Ludwig+Boltzmann [30.03.2020])

بگ بینگ کے واقعہ کے مزید مطالعے کے لیے 1989 میں امریکا کے خلائی ادارہ ناسا (NASA) نے ایک خصوصی سيٹيلائٹ (Cosmic Background Explorer) خلا میں بھیجا۔ اِس سيٹيلائٹ نے بالائی خلاکی جو تصویریں بھیجی ہیں، اُن سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات کے بیرونی حصے میں لہر دار سطح (ripples) موجود ہیں۔ یہ بات صرف بگ بینگ سے نکلی ہوئی لہروں تک محدود نہیں ہے، بلکہ کائنات میںپھیلی ہوئی بے شمار چیزوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان جب کائنات کا مطالعہ کرتاہے تو وہ بولٹزمن کی طرح کہہ اٹھتاہے— کیا یہ خدا تھا، جس نے ان نشانیوں کو لکھا:

Was it a God that wrote these signs?

کائنات کا جب سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک بے نقص (zero-defect) کائنات ہے۔ وسیع خلا میں بے شمار ستارے اور سیارے مسلسل طورپر حرکت میں ہیں، مگر ہمارے شہروں کے برعکس، اس اتھاہ خلا (space)میں کوئی ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا۔ گویا کہ عظیم خلا میں نہایت وسیع پیمانے پر ایک ایکسڈنٹ فری ٹریفک (accident-free traffic) قائم ہے۔ ہماری زمین پر نیچر ہر لمحہ بہت سے واقعات ظہور میں لارہی ہے۔ یہ گویا ایک عظیم صنعتی نظام ہے۔ مگر یہ نظام زیرو ڈفکٹ انڈسٹری (zero-defect industry) کی سطح پر چل رہا ہے۔ یہ بے مثال کائناتی کنٹرول اور یہ آفاقی توازن پکار رہا ہے کہ بلا شبہ اِس کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے، جو اِن واقعات کو ظہور میں لارہا ہے۔

کائنات میں واضح طورپر ایک ذہین منصوبہ بندی (intelligent planning) پائی جاتی ہے۔ ایک چھوٹے ذرے سے لے کر عظیم کہکشانی نظام تک یہ منصوبہ بندی نمایاں طورپر ہمارے مشاہدے میںآتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی بلا شبہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک بہت بڑا ذہن (mind) کار فرما ہے۔ یہ عقیدہ اتنا ہی سائنسی ہے، جتنا کہ ایکس رے کی قابلِ مشاہدہ تصویر کو دیکھ کر ناقابلِ مشاہدہ ایکس ریز (X-Rays) کے وجود کو ماننا۔

موجودات کے مشاہدے سے ایک عظیم حقیقت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اُس میںجگہ جگہ یکسانیت کے ساتھ استثنا (exception amidst uniformity) کی مثالیں موجود ہیں۔ استثنا اُس کو کہاجاتاہے جو عام قانون کے خلاف ہو، جو عام قانون کی پابندی نہ کرے:

Exception: That does not follow the rule.

نیچر میں اِس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہوتی ہیں۔یہ انگلیاں ہر ایک میں یکساں طورپر ہوتی ہیں۔ لیکن ہر ایک کے ہاتھ میںاس کے انگوٹھے کا نشان (finger print) ایک جیسا نہیںہوتا۔ ہر ایک کا نشان دوسرے کے نشان سے الگ ہوتا ہے۔ اِس عموم میں یہ استثنا ایک برتر ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر ممکن نہیں۔ نیچر میں بھی اِس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق، خلا میں تقریباً 125 بلین کہکشائیں (galaxies)موجود ہیں۔ ہرگلیکسی کے اندر تقریباً 200 بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔ لیکن شمسی نظام ایک استثنائی نظام ہے، جو صرف ہماری قریبی کہکشاں ملکی وے (milky way) میں پایا جاتا ہے۔ عظیم کائنات میں یہ استثنا ایک طاقت ور ہستی کی بالقصد مداخلت کے بغیر نہیںہوسکتا:

Exception means intervention, and when intervention is proved, intervenor is also proved. And intervenor is only the other name of God.

ملکی وے جس میں ہماراشمسی نظام واقع ہے، وہ اِس نوعیت کی ایک انوکھی مثال ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ اِس کہکشاں کا درمیانی حصہ ناقابلِ برداشت حد تک گرم ہے۔ اگرہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے درمیانی حصے میں ہو تو ہماری زمین پر کسی قسم کی زندگی اور نباتات کا وجود ہی ممکن نہ رہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارا شمسی نظام، کہکشاں کے ایک کنارے واقع ہے۔ اِس بنا پر وہ کہکشاں کے پُرخطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہے۔ یہ استثنا واضح طورپر ایک منصوبہ بند مداخلت کا ثبوت ہے، اور منصوبہ بند مداخلت بلا شبہ خدائے برتر کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

ہمارے شمسی نظام کے اندر بہت سے سیارے (planets) پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میںسے ایک سیارہ وہ ہے جس کو زمین کہا جاتا ہے۔ دوسرے تمام سیارے اپنے مدار (orbit) پر گھومتے ہیں۔ مگر ہماری زمین اپنے مدار پر گردش کرتے ہوئے اپنے محور (axis) پر بھی گھومتی ہے۔ زمین کی یہ دہری گردش (double- rotation) ایک انتہائی استثنائی گردش ہے، جو کسی بھی ستارے یا سیارے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ استثنا اِس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک ایسے برتر عامل کو تسلیم کیا جائے جس نے اپنی خصوصی مداخلت کے ذریعے یہ با معنیٰ استثنا خلا میں قائم کررکھا ہے۔

ہماری زمین پر استثنا کی ایک ایسی انوکھی مثال پائی جاتی ہے، جو ساری کائنات میںکہیں بھی موجود نہیں، یہ لائف سپورٹ سسٹم (life support system) ہے۔ اِس لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر زمین پر انسان کا یا کسی اور نوعِ حیات کا وجود ممکن نہ تھا۔ لائف سپورٹ سسٹم کا یہ استثنائی انتظام خدا کی موجودگی کا ایک ایسا ثبوت ہے ،جس کا انکار کوئی سنجیدہ انسان نہیں کرسکتا۔

البرٹ آئن سٹائن (وفات1955) کو بیسویں صدی عیسوی کا سب سے بڑا سائنسی دماغ مانا جاتا ہے۔ آئن سٹائن نے کائنات کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اُس نے کائنات کے ہر حصے میں حیرت ناک حد تک معنویت (meaning) پائی۔ یہ دیکھ کر اُس نے کہا  —عالم فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابلِ فہم بات یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے:

The most incomprehensible fact about nature is that it is comprehensible.

آئن سٹائن اپنے اِس قول میں بالواسطہ طورپر خدا کے وجود کا اقرار کررہا ہے۔ اگر اس کے قول کو بدل کر کہاجائے تو وہ اِس طرح ہوگا  — خدا کے بغیر عالم ِ فطرت مکمل طورپر ناقابلِ فہم رہتاہے، اور خدا کے ساتھ عالم ِ فطرت مکمل طور پر قابلِ فہم بن جاتا ہے:

Without God, nature is totally inocmprehensible, and with God, nature becomes totally comprehensible.

کائنات بلاشبہ ایک بامعنی کائنات (meaningful world) ہے۔ سائنس داں وہ لوگ ہیں، جو کائنات کا نہایت گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ عام انسان کے مقابلے میں کائنات کی معنویت سے بہت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے عام طورپر اس کا اعتراف کیا ہے۔ سائنس داں اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر ’’خدا‘‘ (God) کا لفظ بولنے سے احتراز کرتے ہیں۔ لیکن نام کے بغیر وہ اِس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔

مثلاً برٹش سائنس داں سر آرتھر اڈنگٹن (وفات 1944) نے اِس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر کیا ہے کہ کائنات کا مادّہ ایک ذہین مادہ ہے:

The stuff of the world is mind-stuff

اسی طرح برٹش سائنس داں سر جیمز جینز(وفات1947)نے 1930 میں ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کا ٹائٹل تھا

The Mysterious Universe

 اس کتاب میں اس نےلکھاہے کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) کی شہادت دیتی ہے۔ برٹش عالم فلکیات سرفریڈ ہائل(وفات 2001)نے اس حقیقت کا اعتراف یہ کہہ کر کیا ہے کہ ہماری کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ امریکی سائنس داں پال ڈیویز (Paul Davies) نے اقرار کیا ہے کہ کائنات کے پیچھے ایک باشعور ہستی (conscious being) موجود ہے۔

خدا کاوجود بلا شبہ اُسی طرح ایک ثابت شدہ واقعہ ہے، جس طرح کوئی اور ثابت شدہ واقعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کا وجود صرف ایک پُر اسرار عقیدہ کی بات نہیں۔ خدا کا وجود اُسی طرح ایک علمی مسلّمہ ہے، جس طرح کوئی اور علمی مسلّمہ۔ اب یہ سوال ہے کہ خدا ایک ہے یا کئی خدا ہیں، جوکائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام کے ذمّے دار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خدا کا عقیدہ شرک پر مبنی ہے یا توحید پر۔ اِس معاملے میں علم کا فیصلہ مکمل طورپر توحید کے حق میں ہے۔

برٹش ماہر ریاضیات اور سائنس داں نیوٹن (Isaac Newton)کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ نیوٹن سے پہلے دنیا میں توہمات superstitions) (کا زور تھا۔اُس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ خداؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مثلاًسن گاڈ (sun god) ، مون گاڈ(moon god)، رین گاڈ (rain god) ، وغیرہ۔ نیوٹن نے اِس معاملے کا سائنسی مطالعہ کیا۔ اُس نے کہا کہ چار طاقتیں (forces) ہیں، جو کائنات کے نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں یہ ہیں:

(1)    قوتِ کشش (gravitational force) 

(2)  برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)  

(3)  طاقت ور نیوکلیر قوت  (strong nuclear force)

(4)  کم زورنیو کلیر قوت (weak nuclear force)

مگر سائنسی مطالعے کے ذریعے جو دنیا دریافت ہوئی، اُس میںاتنی زیادہ ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی تھی کہ یہ ناقابلِ تصور تھا کہ اتنی زیادہ ہم آہنگ کائنات کو کئی طاقتیں کنٹرول کررہی ہوں۔ اِس لیے سائنسی ذہن اِس تعدّد پر مطمئن نہ تھا۔ مختلف سائنس داں اِس تعداد کو گھٹانے کے لیے کام کررہے تھے، یہاں تک کہ 1979 میںایک نئی تحقیق سامنے آئی۔ اِس تحقیق کے مطابق، کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں تھیں،بلکہ وہ صرف تین تھیں۔ اِس دریافت تک پہنچنے والے تین نوبل انعام یافتہ سائنس داں تھے۔ اُن کے نام یہ ہیں:

Sheldon Glashow (b. 1932)

Steven Weinberg (b. 1933)

Dr. Abdussalam (d. 1996)

تاہم سائنسی ذہن تین کی تعداد پر بھی مطمئن نہ تھا۔ وہ اِس تعداد کو مزید گھٹا کر ایک تک پہنچانا چاہتا تھا۔ یہ کام برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ ( 1942-2018) کے ذریعے انجام پایا۔ اسٹفن ہاکنگ (وفات 2018)کو نظریاتی سائنس میںوقت کا بڑا سائنس داں مانا جاتا ہے۔ اس نے پیچیدہ ریاضیاتی حساب (mathemetical calculations) کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف ایک طاقت (force) ہے، جو پوری کائنات کو کنٹرول کررہی ہے۔ یہ نظریہ اب تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان ایک مسلّمہ کے طورپر مان لیا گیا ہے۔ عمومی زبان میں اس کو سنگل اسٹرنگ نظریہ (single string theory)  کہا جاتاہے۔

سنگل اسٹرنگ نظریہ گویا کہ ایک خدا (توحید ِالٰہ) کے عقیدے کے حق میں ایک سائنسی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ مذہبی عقیدے کو علمی مسلمّہ کی حیثیت دے رہا ہے۔ اب خالص سائنس کی بنیاد پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اِس کائنات کا ایک خدا ہے۔ یہ خدا ایک ہے اور صرف ایک:

The concept of God is purely a scientific concept, and this God is one and one alone.

 سوال

9 مئی 2009  کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں خدا کے وجود کے موضوع پر انگریزی زبان میں آپ کی ایک تقریر تھی۔ میں اِس تقریر میں شروع سے آخر تک شریک رہا۔میں نے دیکھا کہ سامعین نے خدا کے وجود پر دیے گئے سائنسی دلائل سے پورا اتفاق کیا۔تاہم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سینئر ہندو خاتون نے تقریر کے بعد مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب کی بات سے مجھ کو پورا اتفاق ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ خدا کے وجود پر سائنسی دلائل کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ خدا تو ہمارے اندر موجود ہے۔ براہِ کرام، اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)

جواب

مذکورہ خاتون نے جو بات کہی، وہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ اصل یہ ہے کہ خدا کے بارے میں دو الگ الگ تصور (concept) پائے جاتے ہیں۔ ایک ہے، توحید (monotheism) ، یعنی خدا کو ایک شخصی وجود (personal God) کے طور پر ماننا۔ اور دوسرا ہے وحدتِ وجود (monism) كا تصور، یعنی خدا کو غیرشخصی ہستی(impersonal God) کے طورپر ماننا۔ یہ وہی چیز ہے، جس کو کچھ دوسرے لوگ داخل میں بسا ہوا خدا (indwelling god) کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔

وحدتِ وجود کو سنسکرت میں اُدوئت واد کہا جاتا ہے۔ اِس تصور کے مطابق، خدا ایک اسپرٹ ہے، جس طرح قوتِ کشش (gravity) ایک اسپرٹ ہے۔ وہ ہر ایک چیز کے اندر موجود ہے۔ وحدتِ وجود کے نظریے کو اگرچہ مسلم صوفیوں نے اختیار کرلیا، لیکن وہ ایک نادرست  نظریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود کوئی مذہبی تصور نہیں، وہ صرف ایک فلسفیانہ تصور ہے جس کو مذہب میں شامل کرلیاگیا ہے۔

موجودہ زمانے میں سائنس نے کائنات کا جو مطالعہ کیا ہے، اُس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے انتظام میں ایک برتر ذہن (superior mind) کام کررہا ہے، جس کو ایک سائنس داں نے شعوری وجود (conscious being)  کا نام دیا ہے۔ اِس طرح سائنس کی دریافتوں نے وحدتِ وجود کے تحت مفروضہ تصورِ خدا کی مکمل طور پر تردید کردی ہے، جس طرح اُس نے زمین مرکزی (geo-centric) شمسی نظام کی تردید کردی تھی۔ اِس کے برعکس، سائنس کی دریافتیں پورے معنوں میں عقیدۂ توحید کے تحت بیان کردہ تصورِ خدا کی علمی تصدیق بن گئی ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom