خدا اور انسان
خدا كے وجود كا سب سے بڑا ثبوت انسان كا خود اپنا وجود هے۔ خدا جيسي هستي كو ماننا جتنامستبعد هے، اتنا هي مستبعد يه بھي هے كه انسان جيسي هستي كو مانا جائے۔ اگر هم ايك انسان كو مانتے هيں تو ايك خدا كو ماننے ميں بھي همارے ليےكوئي ركاوٹ نهيں هونا چاهيے۔
قرآن ميں بتاياگيا هے كه خدانے انسان كے اندر اپني روح پھونكي (الحجر،15:29)۔ اس كا مطلب يه هے كه انسان خدا كي صفات كا ايك بشري نمونه هے۔ وجود، زندگي،علم، قدرت، اراده، اختيار اور دوسري صفاتِ كمال جن كا حقيقي مظهر صرف خدا كي ذات هے۔ ان صفات كا ايك عكس (نه كه حصه) انسان كو دیا گیا هے۔ انسان كسي بھي اعتبار سے خدا كا جزء نهيں، مگر وه اپني ذات ميں اس خدا كي محسوس دليل هے، جس خدا كو غيبي طورپر ماننے كا انسان سے مطالبه كيا گيا هے۔
انسان كے اندر وه ساري خصوصيات شهود (seen)كے درجے ميں موجودهيں، جن خصوصيات كے ساتھ ايك خدا كو غيب (unseen)كے درجے ميں ماننے كا مطالبه كياگياهے۔
انسان كا ايك مستقل وجود هے۔ وه ديكھنے اور سننے اور بولنے كي صلاحيت ركھتا هے۔ وه سوچتا هے، اور منصوبه بناتا هے۔ وه اپنے ذاتي ارادے كے تحت حركت كرتا هے۔ وه ماده كو تمدن ميں تبديلي كرتاهے۔ وه ريموٹ كنٹرول سسٹم كے ذريعے خلائي مشين كو چلاتاهے۔ وه اپني ذات كا شعور ركھتا هے۔ وه جانتا هے كه ’’ميں هوں‘‘ — انھيں صفات كي كامل هستي كا نام خدا هے۔
انسان اور خدا ميں جو فرق هے، وه يه هے كه انسان كا وجود غير حقيقي هے، اور خدا كا وجود حقيقي۔ يه مخلوق هے اور وه خالق۔ يه محدود هے اور وه لامحدود۔ يه بے اختيار هے اور وه بااختيار۔ يه فاني هے اور وه غير فاني۔ انسان كے پاس جو كچھ هے وه عطيه هے جب كه خداكے پاس جو كچھ هے وه اس كا ذاتي هے، وه كسي دوسرے كا ديا هوا نهيں۔
انسان كو ماننا بلا تشبيه ’’چھوٹے خدا‘‘ كو ماننا هے۔ پھر كيا وجه هے وه ’’بڑے خدا‘‘ كو نه مانے۔ هر شخص جو خدا كو نهيں مانتا، وه يقيناً اپنا اقرار كرتا هے۔ وه انساني وجود كو تسليم كرتاهے۔ جو شخص انسان كو مان رها هو، اس كے ليے خدا كو نه ماننے كي كوئي دليل نهيں۔ انسان كے وجودكا اقرار كركے وه خدا كے وجود كا بھي اقرار كرچكا هے، خواه وه اپني زبان سے اس كا اظهار كرے يا نه كرے۔
حقيقت يه هے كه خدا كا انكار خود اپنا انكار هے، اور كون هے جو خود اپنا انكار كرسكے۔