جس زندگي كي هميں تلاش هے
مشہور جرمن مفکر فريڈرش انگلس (Friedrich Engels, 1829-1895) نے كها هے — ’’آدمي كو سب سے پهلے تن ڈھانكنے كو كپڑا اور پيٹ بھرنے كو روٹي چاهیے، اس كے بعد هي وه فلسفه وسياست كے مسائل پر غور كرسكتاهے۔‘‘ مگر حقيقت يه هے كه انسان سب سے پهلے جس سوال كا جواب معلوم كرنا چاهتاهے ،وه يه سوال هے كه ’’ميں كيا هوں؟ يه كائنات كيا هے، ميري زندگي كيسے شروع هوئي اور كهاں جاكر ختم هوگي؟‘‘ يه انساني فطرت كے بنيادي سوالات هيں۔
آدمي ايك ايسي دنياميں آنكھ كھولتاهے جهاں سب كچھ هے مگر يهي ايك چيز نهيں۔ سورج اس كو روشني اور حرارت پهنچاتاهے، مگر وه نهيں جانتا كه وه كياهے ،اور كيوں انسان كي خدمت ميں لگا هواهے۔ هوا اس كو زندگي بخشتي هے، مگر انسان كے بس ميں نهيں هے كه وه اس كو پكڑ كر پوچھ سكے كه تم كون هو، اور كيوں ايسا كررهي هو؟ وه اپنے وجود كو ديكھتا هے، اور نهيں جانتا كه ميں كيا هوں، اور كس ليے اس دنيا ميں آگيا هوں؟ ان سوالات كاجواب متعين كرنے سے انسان كا ذهن قاصر هے۔ مگر انسان بهر حال ان كو معلوم كرنا چاهتا هے۔ يه سوالات خواه لفظوں كي شكل ميں متعين هو كر هر شخص كي زبان پر نه آئيں مگر وه انسان كي روح كو بے چين ركھتے هيں، اور كبھي كبھي اس شدّت سے ابھرتے هيں كه آدمي كو پاگل بنا ديتے هيں۔
انگلس كو دنيا ايك ملحد انسان كي حيثيت سے جانتي هے۔ مگر اس كا الحاد اس كے غلط ماحول كا ردّ عمل ـتھا جو بهت بعد كو اس كي زندگي ميںظاهر هوا۔ اس كي ابتدائي زندگي مذهبي ماحول ميں گزري، جب وه بڑاهوا اور نظر ميں گهرائي پيداهوئي تو رسمي مذهب سے بے اطميناني پيدا هوگئي۔ اپنے اس دور كا حال وه ايك دوست كے نام اپنے خط ميں اس طرح لكھتاهے:
’’ميں هر روز دعا كرتاهوں اور تمام دن يهي دعا كرتا رها هوں كه مجھ پر حقيقت آشكارا هوجائے۔ جب سے ميرے دل ميں شكوك پيداهوئے هيں يهي دعا كرنا ميرا مشغله هے، ميں تمھارے عقيدے كو قبول نهيں كرسكتا۔ ميں يه سطريں لكھ رها هوں اور ميرادل آنسوؤں سے امڈا چلا آرهاهے۔ ميري آنكھيں رورهي هيں ليكن مجھے يه احساس هو رها هے كه ميں راندهٔ درگاه نهيں هوں۔ مجھے اميدهے كه ميں خدا تك پهنچ جاؤں گا جس كے ديدار كا ميں دل وجان سے متمني هوں اور مجھے اپني جان كي قسم! يه ميري جستجو اورعشق كياهے يه روح القدس كي جھلك هے۔ ‘‘
At the age of nineteen, Engels wrote as follows: "I pray every day; almost all day long I pray that the truth may be given to me. I have done this since doubts assailed me, but still I cannot return to our faith... I write these lines with tears in eyes, it is hard for me to control my emotion, but nevertheless I feel that I will not be lost, that I will find God, toward whom I aspire with all my heart." (David Riazanov: Essays on the History of Marxism, p. 36, copied from "Max Eastman: Marx, Lenin and the Science of Revolution," p. 148, accessed from Google Book, 07.04.2020)
يه وهي حقيقت كي تلاش كا فطري جذبه هے جو نوجوان انگلس ميںاُبھرا تھا۔ مگر اس كو تسكين نه مل سكي، اور مروجه مسيحي مذهب سے غير مطمئن هو كر وه معاشي اور سياسي فلسفوں ميں گم هوگيا۔
اس طلب كي حقيقت يه هے كه انسان كي فطرت ميں ايك خالق اور مالك كا شعور پيدائشي طور پر پيوست هے۔ وه اس كے لاشعور كا ايك لازمي جزء هے۔ ’’خدا ميرا خالق هے اور ميں اس كا بنده هوں۔‘‘ يه ايك خاموش عهد هے، جو هر شخص اوّل روز سے اپنے ساتھ لے كر اس دنياميں آتاهے۔ ايك پيدا كرنے والے آقا ومحسن كا تصور غير محسوس طورپر اس كي رگوں ميں دوڑتا رهتاهے۔ اس كے بغير وه اپنے اندر عظيم خلا محسوس كرتاهے۔ اس كي روح اندر سے زور كرتي هے كه جس آقا كو اس نے نهيں ديكھا اسے پالے۔ اس سے لپٹ جائے اور اپنا سب كچھ اس كے حوالے كردے۔
خدا كي معرفت ملنا گويا اس جذبے كے صحيح مرجع كو پالينا هے، اور جو لوگ خدا كو نهيں پاتے ان كے جذبات كسي دوسري مصنوعي چيز كي طرف مائل هوجاتے هيں۔ هرشخص اپنے اندر يه خواهش ركھنے پر مجبور هے كه كوئي هو، جس كے آگے وه اپنے بهترين جذبات كو نذر كردے۔
15 اگست 1947 كو جب هندستان كي سركاري عمارتوں سے برٹش ایمپائر کا يونين جيك اتار كر ملك كا قومي جھنڈا لهرايا گيا تو يه منظر ديكھ كر ان قوم پرستوں كي آنكھوں ميں آنسو آگئے، جو اپنے ملك كو آزاد ديكھنے كے ليے تڑپ رهے تھے۔ يه آنسو دراصل ’’آزادي كي ديوي‘‘ كے ساتھ ان كے تعلق كا اظهار تھا۔ يه اپنے معبود كو پالينے كي خوشي تھي، جس كے ليے انھوں نے اپني عمر كا بهترين حصه صرف كرديا تھا۔اسي طرح ايك ليڈر جب ’’قوم كے باپ‘‘ كي قبر پر جا كر پھول چڑھاتا هے، اور اس كے آگے سر جھكا كر كھڑاهو جاتا هے تو وه ٹھيك اسي عمل كو دهراتاهے، جو ايك مذهبي آدمي اپنے معبود كے ليے ركوع اور سجدے كے نام سے كرتاهے۔ ايك كميونسٹ جب لينن كے مجسمے كے پاس سے گزرتے هوئے اپني هيٹ اتارتا هے، اور اس كے قدموں كي رفتار سست پڑ جاتي هے تو اس وقت وه اپنے معبود كي خدمت ميں اپنے عقيدت كے جذبات نذر كررها هوتاهے۔ اسي طرح هر شخص مجبور هے كه كسي نه كسي چيز كواپنا معبود بنائے اور اپنے جذبات كي قرباني اس كے آگے پيش كرے۔
يه جذبه چونكه ايك فطري جذبه هے۔ اس ليے ابتداء ً وه هميشه فطري شكل ميں ابھرتا هے ۔اس كا پهلا رخ اپنے اصلي معبود كي طرف هوتا هے ۔مگر حالات اور ماحول كي خرابياں اس كو غلط سمت ميں موڑ ديتي هيں، اور كچھ دنوں كے بعد جب آدمي ايك مخصوص زندگي سے مانوس هوجاتاهے تو اس ميں اس كو لذّت ملنے لگتي هے۔ برٹرينڈ رسل اپنے بچپن ميں ايك كٹّر مذهبي آدمي تھا۔ وه باقاعده عبادت كرتاتھا۔ اسي زمانے ميں ايك روز اس كے دادا جان نے پوچھا۔ ’’تمھاري پسنديده دعا كون سي هے؟’ چھوٹے رسل نےجواب ديا۔‘‘ ميں زندگي سے تنگ آگيا هوں، اور اپنے گناهوں كے بوجھ سے دبا هوتا هوں۔‘‘اس زمانے ميں خدا برٹرينڈ رسل كا معبود تھا۔ ليكن جب رسل تيره برس كي عمر كو پهنچا تو اس كي عبادت چھوٹ گئي، اور مذهبي روايات اور پراني قدروں سے باغيانه ماحول كےاندر رهنے كي وجه سے خود اس كے اندر بھي ان چيزوں سے بغاوت كے رجحانات ابھرنے لگے۔ اور بالآخر برٹرينڈ رسل ايك ملحد انسان بن گيا۔ جس كي محبوب ترين چيزيں رياضي اور فلسفه تھے۔ 1959ء كا واقعه هے۔ بي بي سي لندن پر ايك بات چيت پروگرام ميں فري مين نے رسل سے پوچھا: ’’كيا آپ نے مجموعي طورپر رياضي اور فلسفے كے شوق كو مذهبي جذبات كا نعم البدل پايا هے۔‘‘ رسل نے جواب ديا: ’’جي هاں، يقيناً ميں چاليس برس كي عمر تك اس اطمينان سے هم كنار هوگيا تھا، جس كے متعلق افلاطون نےكها هے كه آپ رياضي سے حاصل كرسكتے هيں۔ يه ايك ابدي دنيا تھي۔ وقت كي قيد سے آزاد دنيا۔ مجھے يهاں مذهب سے ملتا جلتا ايك سكون نصيب هوگيا۔‘‘
برطانيه كے اس عظيم مفكر نے خداكو اپنا معبود بنانے سے انكار كرديا۔ مگر معبود كي ضرورت سے پھر بھي وه بے نياز نه ره سكا، اور جس مقام پر پهلے اس نے خدا كوبٹھا ركھا تھا۔ وهاں رياضي اور فلسفے كو بٹھانا پڑا — يهي نهيں بلكه رياضي اور فلسفے كے ليے وه صفات بھي تسليم كرني پڑيں، جو صرف خدا هي كي صفت هوسكتي هے— ابديت اور وقت كي قيد سے آزادي ؛ كيونكه اس كے بغير اسے مذهب سے ملتاجلتا وه سكون نهيں مل سكتا تھا، جو دراصل اس كي فطرت تلاش كررهي تھي۔
ايسے لوگ جو خدا كو نهيں مانتے اور پرستش كو بے معني چيز سمجھتے هيں، وه اپنے خود ساخته بتوں كے آگے جھك كر اپنے اندروني جذبهٔ عبوديت كو تسكين ديتے هيں۔ يه حقيقت هے كه ’’الٰه‘‘ انسان كي ايك فطري ضرورت هے ،اور يهي اس كا ثبوت هے كه وه حقيقي هے۔ انسان اگر خدا كے سامنے نه جھكے تو اس كو دوسرے اِلہٰوں (معبودوں) كے سامنے جھكنا پڑے گا۔ كيونكه الٰه كے بغير اس كي فطرت اپنے خلا كو پُر نهيں كرسكتي۔
مگر بات صرف اتني نهيں هے۔ اس سے آگے بڑھ كر ميں كهتا هوں كه جو لوگ خدا كے سوا كسي اور كو اپنا معبود بناتے هيں ،وه ٹھيك اسي طرح حقيقي سكون سے محروم رهتے هيں جيسے كوئي بچے سے محروم ماں پلاسٹك كي گڑيا خريد كر بغل ميں دبا لے اور اس سے تسكين حاصل كرنا چاهے۔ ايك ملحد انسان خواه وه كتنا هي كامياب كيوں نه هو۔ اس كي زندگي ميںايسے لمحات آتے هيں جب وه سوچنے پر مجبور هوتاهے كه حقيقت اس كے سوا كچھ اور هے، جو ميں نے پائي هے۔
آزادي سے باره سال پهلے 1935ء ميں جب پنڈت جواهر لال نهرو نے جيل خانے ميں اپني آپ بيتي مكمّل كي تو اس كے آخر ميں انھوں نے لكھا:’’ميں محسوس كرتاهوں كه ميري زندگي كا ايك باب ختم هوگيا اور اب اس كا دوسرا باب شروع هوگا۔ اس ميں كيا هوگا، اس كے متعلق ميں كوئي قياس نهيں كرسكتا۔ كتابِ زندگي كے اگلے ورق نامعلوم هيں۔‘‘
(Nehru, An Autobiography, London, p. 597)
نهرو كي زندگي كے اگلے اوراق كھلے تو معلوم هوا كه وه دنيا كے تيسرے سب سے بڑے ملك كے وزير اعظم هيں،اور دنياكي آبادي كے چھٹے حصے پر بلا شركت حكومت كررهے هيں، مگر اس يافت نے نهرو كو مطمئن نهيں كيا، اور اپنے انتهائي عروج كے زمانے ميں بھي وه محسوس كرتے رهے كه كتابِ زندگي كے مزيد كچھ اوراق هيں، جو ابھي تك بند هيں، اور وهي سوال آخر عمر ميں بھي ان كے ذهن ميں گھومتا رها،جس كو لے كر هر انسان پهلے روز پيدا هوتا هے۔ جنوري 1964 كے پهلے هفتے ميں مستشرقين كي بين الاقوامي كانفرنس نئي دهلي ميں هوئي، جس ميں هندستان اور دوسرے ملكوں كے باره سوڈ يليگيٹ شريك هوئے۔ پنڈت نهرو نے اس موقع پر تقرير كرتے هوئے كها: ’’ميں ايك سياستدان هوں، اور مجھے سوچنے كے ليے وقت كم ملتا هے۔ پھر بھي بعض اوقات ميں يه سوچنے پر مجبور هوجاتا هوں كه آخر يه دنيا كيا هے، كس ليے هے، هم كيا هيں اور كياكررهے هيں۔ ميرا يقين هے كه كچھ طاقتيں هيں جو هماري تقدير كو بناتي هيں۔‘‘
(National Herald, 6 January, 1964)
يه ايك عدم اطمينان هے، جو ان تمام لوگوں كے روحوں پر گهرے كهر كي طرح چھايا رهتا هے، جنھوں نے خداكو اپنا الٰه اور معبود بنانے سے انكاركيا۔ دنيا كي مصروفيتوں اور وقتي دلچسپيوں ميں عارضي طورپر كبھي ايسا محسوس هوتا هے كه وه اطمينان سے هم كنار هيں مگر جهاں يه مصنوعي ماحول ختم هوا، حقيقت اندر سے زور كرنا شروع كرديتي هے،اور انھيں ياددلاتی هے كه وه سچے اطمينان سے محروم هيں۔
ميك گل يونيورسٹي كے پروفيسر مائيكل بريچر (Michael Brecher, b. 1925) نے پنڈت جواهر لال نهرو كي سياسي سوانح حيات لكھي هے ۔ اس سلسلے ميں مصنف نے پنڈت نهرو سے ملاقات بھي كي تھي۔ نئي دهلي كي ايك ملاقات ميں 13 جون 1956ء كو انھوں نے پنڈت نهرو سے سوال كيا: ’’آپ مختصر طورپر مجھے بتائيے كه آپ كے نزديك اچھے سماج كے ليے كيا چيزيں ضروري هيں اور آپ كا بنيادي فلسفهٔ زندگي كيا هے۔‘‘
جواہر لال نہرو نے جواب ديا:’’ميں كچھ معياروں كا قائل هوں، آپ ان كو اخلاقي معيار (moral standards) كهه ليجیے۔ يه معيار هر فرد اور سماجي گر وه كے لیے ضروري هيں۔ اگر وه باقي نه رهيں تو تم مادي ترقي كے باوجود آپ كسي مفيد نتيجے تك نهيں پهنچ سكتے ۔ان معياروں كو كيسے قائم ركھا جائے، يه مجھے نهيں معلوم۔ ايك تو مذهبي نقطهٔ نظر هے ۔ليكن يه اپنے تمام رسوم اور طريقوں كے ساتھ مجھے تنگ نظر آتا هے — ميں اخلاقي اور روحاني قدروں كو مذهب سے الگ كركے بهت اهميت ديتاهوں، ليكن ميں نهيں جانتا كه ان كو ماڈرن زندگي ميں كس طرح قائم ركھا جاسكتا هے۔ يه ايك مسئله هے۔‘‘
(Nehru: A Political Biography, London 1959, pp. 607-08.)
يه سوال وجواب جديد انسان كے اس دوسرے خلا كو بتاتا هے، جس ميں آج وه شدّت سے گرفتار هے۔ افراد كو ديانت واخلاق كے ايك خاص معيار پر باقي ركھناهرسماجي گروه كي ايك ناگزير ضرورت هے۔ اس كے بغير تمدن كا نظام صحيح طورپر برقرار نهيں ره سكتا۔ مگر خدا كو چھوڑنے كے بعد انسان كو نهيں معلوم كه وه اس ضرورت كو كيسے پورا كرے۔ سينكڑوں سال كے تجربے كے بعدوه ابھي بدستور تلاش كي منزل ميں هے۔
يه علامتيں اس بات كا ثبوت هيں كه بے خدا تهذيب نے انسانيت كي گاڑي كو دلدل ميں لا كر ڈال دياهے۔ اس كو اس پٹري سے محروم كرديا هے، جس كے اوپر چل كر وه اپنا سفر بحسن وخوبي طے كرسكتي هے۔ زندگي كي كشتي بے لنگر اور بغير بادبان هوگئي هے ۔اس كا واحد حل يه هے كه انسان خدا كي طرف پلٹے۔ وه زندگي كے ليے مذهب كي اهميت كو تسليم كرے۔ يهي وه تنها بنياد هے، جس پر زندگي كي بهتر تعمير ممكن هے، اس كے سوا كسي بھي دوسري بنياد پر زندگي كي تعمير نهيں كي جاسكتي۔