مخالفينِ مذهب كا استدلال
’’جس طرح ايٹم كے ٹوٹنے سے مادّه كے بارے ميں انسان كے پچھلے تمام تصورات ختم هوگئے اسي طرح پچھلي صديوں ميں علم كي جوترقي هوئي هے وه بھي ايك قسم كا علمي دھماكه (knowledge explosion)هے جس كے بعد خدا اور مذهب كے متعلق تمام پرانے خيالات بھك سے اُڑ گئے هيں‘‘۔ ( هندستان ٹائمس، سنڈے ميگزين، 23 ستمبر 1961)
يه جولين هكسلے(وفات1975) كے الفاظ هيں۔ جديد بے خدا مفكرين كے نزديك مذهب كوئي حقيقي چيز نهيں هے۔ وه انسان كي صرف اس خصوصيت كا نتيجه هے كه وه كائنات كي توجيهه كرنا چاهتا هے۔ توجيهه تلاش كرنے كا انساني جذبه بذاتِ خود غلط نهيں هے ۔ مگر كم تر معلومات نے همارے پرانے اجداد كو ان غلط جوابات تك پهنچا ديا، جس كو خدا يا مذهب كهاجاتا هے۔ اب جس طرح بهت سے دوسرے معاملات ميں انسان نے اپني علمي ترقي سے ماضي كي غلطيوں كي اصلاح كي هے، اسي طرح توجيهه كے معاملے ميں بھي وه آج اس پوزيشن ميں هے كه اپني انتهائي غلطيوں كي اصلاح كرسكے۔
اس طريقِ فكر كے مطابق مذهب، حقيقي واقعات كي غير حقيقي توجيهه هے، پهلے زمانے ميں انسان كا علم چونكه بهت محدود تھا اس ليے واقعات كي صحيح توجيهه ميں اسے كاميابي نهيں هوئي، اور اس نے مذهب كے نام سے عجيب عجيب مفروضے قائم كرليے۔ مگر ارتقا كے عالم گير قانون نے آدمي كو اس اندھيرے سے نكال ديا هے، اور جديد معلومات كي روشني ميں يه ممكن هوگيا هے كه اٹكل پچو عقائد پر ايمان ركھنے كے بجائے خالص تجرباتي اور مشاهداتي ذرائع سے اشيا كي حقيقت معلوم كي جائے۔ چنانچه وه تمام چيزيں جن كو پهلے مافوق الطبيعي اسباب كا نتيجه سمجھا جاتا تھا۔ اب بالكل فطري اسباب كے تحت ان كي تشريح معلوم کرلي گئي هے۔ جديد طريق ِمطالعه نے هميں بتا ديا هے كه خدا كا وجود فرض كرنا انسان كي كوئي واقعي دريافت نهيں تھي بلكه يه محض دورِ لاعلمي كے قياسات تھے، جو علم كي روشني پھيلنے كے بعد خود بخود ختم هوگئے هيں۔ جولين هكسلے كهتا هے:
’’نيوٹن نے دكھا ديا هے كه كوئي خدا نهيں هے جو سياروں كي گردش پر حكومت كرتا هو۔ لاپلاس نے اپنے مشهور نظريے سےاس بات كي تصديق كردي هے كه فلكي نظام كو خدائي مفروضه كي كوئي ضرورت نهيں۔ ڈارون اور پاسچر نے يهي كام حياتيات كے ميدان ميں كيا هے اور موجوده صدي ميں علم النفس كي ترقي اور تاريخي معلومات كے اضافے نے خدا كو اس مفروضه مقام سے هٹا ديا هے كه وه انساني زندگي اور تاريخ كو كنٹرول كرنے والا هے‘‘۔
(Religion without Revelation, N. Y. 1958. p. 58)
طبيعاتي دنيا ميں اس انقلاب كا هيرو نيو ٹن هے، جس نے يه نظريه پيش كيا كه كائنات كچھ ناقابلِ تغير اصولوں ميں بندھي هوئي هے۔ كچھ قوانين هيں جن كے تحت تمام اجرام سماوي حركت كررهے هيں۔ بعد كو دوسرے بے شمار لوگوں نے اس تحقيق كو آگے بڑھايا۔ يهاں تك كه زمين سے لے كر آسمان تك سارے واقعات ايك اٹل نظام كے تحت ظاهر هوتےهوئے نظر آئے، جس كو قانونِ فطرت (law of nature) كا نام دياگيا۔ اس دريافت كے بعد قدرتي طورپر يه تصور ختم هوجاتا هے كه كائنات كے پيچھے كوئي فعال اور قادر خدا هے جو اس كو چلا رها هے۔زياده سے زياده گنجائش اگر هوسكتي هے تو ايسے خدا كي جس نے ابتداء ً كائنات كو حركت دي هو۔ چنانچه شروع ميں لوگ محركِ اوّل كے طورپر خدا كو مانتے رهے۔ والٹير (Voltaire, 1694-1778)نے كها كه خدا نے اس كائنات كو بالكل اسي طرح بنايا هے، جس طرح ايك گھڑي ساز گھڑي كے پرزے جمع كركے انھيں ايك خاص شكل ميں ترتيب دے ديتا هے، اور اس كے بعد گھڑي كے ساتھ اس كا كوئي تعلق باقي نهيں رهتا۔ اس كے بعد هيوم (David Hume, 1711-1776)نے اس ’’بے جان اور بے كار خدا‘‘ كو بھي يه كهه كر ختم كرديا كه هم نے گھڑياں بنتے هوئے ديكھي هيں۔ ليكن دنيائيں بنتي هوئي نهيں ديكھيں۔ اس ليے كيوں كر ايسا هوسكتا هے كه هم خدا كو مانيں۔
سائنس كي ترقي اور علم كے پھيلاؤ نے اب انسان كو وه كچھ دكھا ديا هے، جس كو پهلے اس نے ديكھا نهيں تھا۔ واقعات كي جن كڑيوں كو نه جاننے كي وجه سے هم سمجھ نهيں سكتے تھے كه يه واقعه كيوں هوا۔وه اب واقعات كي تمام كڑيوں كے سامنے آجانے كي وجه سے ايك جاني بوجھي چيز بن گيا هے۔ مثلاً پهلے آدمي يه نهيں جانتا تھا كه سورج كيسے نكلتا اور كيسے ڈوبتا هے۔اس ليے اس نے سمجھ ليا كه كوئي خدا هے، جو سورج كو نكالتا هے،اور اس كو غروب كرتاهے۔ اس طرح ايك مافوق الفطري طاقت كا خيال پيدا هوا۔ اور جس چيز كو آدمي نهيں جانتا تھا، اس كے متعلق كهه ديا كه يه اسي طاقت كا كرشمه هے۔ مگر اب جب كه هم جانتے هيں كه سورج كا نكلنا اور ڈوبنا، اس كے گرد زمين كے گھومنے كي وجه سے هوتا هے تو سورج كو نكالنے اور غروب كرنے كے ليے خدا كو ماننے كي كيا ضرورت۔اسي طرح وه تمام چيزيں جن كے متعلق پهلے سمجھا جاتا تھا كه ان كے پيچھے كوئي اَن ديكھي طاقت كام كررهي هے۔ وه سب جديد مطالعه كے بعد هماري جاني پهچاني فطري طاقتوں كے عمل اور ردّ عمل كا نتيجه نظر آيا۔ گويا واقعے كے فطري اسباب معلوم هونے كے بعد وه ضرورت آپ سے آپ ختم هوگئي، جس كے ليے پهلے لوگوں نے ايك خدا يا فوق الفطري طاقت كا وجود فرض كرليا تھا۔ ’’اگر قوس و قزح گرتي هوئي بارش پر سورج كي شعاعوں كے انعطاف (refraction) سے پيدا هوتي هے تو يه كهنا بالكل غلط هے كه وه آسمان كے اوپر خدا كا نشان هے‘‘ — هكسلے اس قسم كے واقعات پيش كرتا هوا كس قدر يقين كے ساتھ كهتا هے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
يعني واقعات اگر فطري اسباب كے تحت پیش آتے هيں تو وه مافوق الفطري اسباب كے تحت پيدا كیے هوئے نهيں هوسكتے۔
اب اس دليل كو ليجیے، جو طبيعاتي تحقيق كے حوالے سے پيش كي گئي هے۔ يعني كائنات كا مطالعه كرنے سے معلوم هوا هے كه يهاں جو واقعات هورهے هيں، وه ايك متعين قانونِ فطرت كے مطابق هورهے هيں۔ اس ليے ان كي توجيهه كرنے كے ليے كسي نامعلوم خدا كا وجود فرض كرنے كي ضرورت نهيں۔ كيوں كه معلوم قوانين خود اس كي توجيهه كے ليے موجود هيں۔ اس استدلال كا بهترين جواب وه هے جو ايك عيسائي عالم نے ديا۔ اس نے كها:
Nature is a fact, not an explanation.
يعني فطرت كا قانون كائنات كا ايك واقعه هے، وه كائنات كي توجيهه نهيں هے۔ تمھارا يه كهنا صحيح هے كه هم نے فطرت كے قوانين معلوم كرليےهيں۔ مگر تم نے جو چيز معلوم كي هے، وه اس مسئلے كا جواب نهيں هے،جس كے جواب كے طور پر مذهب وجود ميں آيا هے۔ مذهب يه بتاتا هے كه وه اصل اسباب ومحركات كيا هيں، جو كائنات كے پيچھے كام كررهے هيں۔ جب كه تمھاري دريافت صرف اس مسئلے سے متعلق هے كه كائنات جو همارے سامنے كھڑي نظر آتي هے اس كا ظاهري ڈھانچه كيا هے۔
جديد علم جو كچھ هميں بتاتا هے وه صرف واقعات كي مزيد تفصيل هے نه كه اصل واقعے كي توجيهه۔ سائنس كا سارا علم اس سے متعلق هے كه ’’جو كچھ هے وه كياهے‘‘۔ يه بات اس كي دسترس سے باهر هے كه ’’جو كچھ هے وه كيوں هے‘‘ جب كه توجيهه كا تعلق اسي دوسرے پهلو سے هے۔
اس كو ايك مثال سے سمجھیے ۔ مرغي كا بچه انڈے كے مضبوط خول كےاندر پرورش پاتا هے، اور اس كے ٹوٹنے سے باهر آتا هے۔ يه واقعه كيوں كر هوتا هے كه خول ٹوٹے اور بچه جو گوشت كے لوتھڑے سے زياده نهيں هوتا، وه باهر نكل آئے۔ پهلے كا انسان اس كا جواب يه ديتا تھا كه ’’خدا ايسا كرتا هے‘‘۔ مگر اب خوردبيني مشاهده (microscopic observation)كے بعد معلوم هوا كه جب 21 روز كي مدت پوري هونے والي هوتي هے، اس وقت ننھے بچے كي چونچ پر ايك نهايت چھوٹي سي سخت سينگ ظاهر هوتي هے۔ اس كي مدد سے وه اپنے خول كو توڑ كر باهر آجاتا هے۔ سينگ اپنا كام پورا كركے بچے كي پيدائش كے چند دن بعد خود بخود جھڑ جاتي هے۔
مخالفينِ مذهب كے نظريے كے مطابق يه مشاهده اس پرانے خيال كو غلط ثابت كرديتا هےكه بچے كو باهر نكالنے والا خدا هے۔ كيونكه خوردبين كي آنكھ هم كو صاف طور پر دكھا رهي هے كه ايك 21 روزه قانون هے، جس كے تحت وه صورتيں پيدا هوتي هيں، جو بچے كو خول كے باهر لاتي هيں۔ مگر يه مغالطے كے سوا اور كچھ نهيں۔ جديد مشاهدے نے جو كچھ هميں بتايا هے، وه صرف واقعے كي چند مزيد كڑياں هيں، اس نے واقعے كا اصل سبب نهيں بتايا۔ اس مشاهدے كے بعد صورتِ حال ميں جو فرق هوا هے، وه اس كے سوا اور كچھ نهيں هے كه پهلے جو سوال خول كے ٹوٹنے كے بارےميں تھا، وه ’’سينگ‘‘ كے اوپر جاكر ٹھهر گيا۔ بچہ كا اپني سينگ سے خول كو توڑنا، واقعے كي صرف ايك درمياني كڑي هے، وه واقعه كا سبب نهيں هے۔ واقعه كا سبب تو اس وقت معلوم هوگا، جب هم جان ليں كه بچے كي چونچ پر سينگ كيسے ظاهر هوئي۔ دوسرے لفظوں ميں اس آخري سبب كا پته لگاليں، جو بچے كي اس ضرورت سے واقف تھا كه اس كو خول سے باهر نكلنے كے ليے كسي سخت مددگار كي ضرورت هے، اور اس نے مادہ كو مجبور كيا كه عين وقت پر ٹھيك 21 روز بعد وه بچه كي چونچ پر ايك ايسي سينگ كي شكل ميں نمودار هو، جو اپنا كام پورا كرنے كے بعد جھڑ جائے۔ گويا پهلے يه سوال تھاكه ’’خول كيسے ٹوٹتا هے‘‘۔ اور اب سوال يه هوگيا كه ’’سينگ كيسے بنتي هے‘‘۔ ظاهر هے كه دونوں حالتوں ميں كوئي نوعي فرق نهيں۔ اس كو زياده سے زياده حقيقت كا وسيع تر مشاهده كهه سكتے هيں۔ حقيقت كي توجيهه كا نام نهيں دے سكتے۔
يهاں ميں ايك امريكي عالم حياتيات (Cecil Boyce Hamann, 1913-1984) كے الفاظ نقل كروں گا:
’’غذا هضم هونے اور اس كے بدن کا جزءبننے كے حيرت انگيز عمل كو پهلے خدا كي طرف منسوب كياجاتا تھا۔ اب جديد مشاهدے ميں وه كيميائي ردّ ِعمل كا نتيجه نظر آتا هے۔ مگر كيا اس كي وجه سے خدا كے وجود كي نفي هوگئي۔ آخر وه كون سی طاقت هے جس نے كيميائي اجزا كو پابند كيا كه وه اس قسم كا مفيد ردّ عمل ظاهر كريں۔ غذا انسان كے جسم ميں داخل هونے كے بعد ايك عجيب وغريب خود كار انتظام كے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتي هے، اس كو ديكھنے كے بعد يه بات بالكل خارج از بحث معلوم هوتي هے كه يه حيرت انگيز انتظام محض اتفاق سے وجود ميں آگيا۔ حقيقت يه هے كه اس مشاهدے كے بعد تو اور زياده ضروري هوگيا هے كه هم يه مانيں كه خدا اپنے ان عظيم قوانين كے ذريعے عمل كرتا هے جس كے تحت اس نے زندگي كو وجود ديا هے۔‘‘
(The Evidence of God in an Expanding Universe, p. 221)
يعني فطرت كائنات كي توجيهه نهيں كرتي، وه خود اپنے ليے ايك توجيهه كي طالب هے۔ بلا شبه سائنس نے هم كو بهت سي نئي نئي باتيں بتائي هيں۔ مگر مذهب جس سوال كا جواب هے، اس كا ان دريافتوں سے كوئي تعلق نهيں۔ اس قسم كي دريافتيں اگر موجوده مقدار كے مقابلے ميںاربوں، كھربوں گنا بڑھ جائيں ، جب بھي مذهب كي ضرورت باقي رهے گي۔ كيونكه يه دريافتيں صرف هونے والے واقعات كو بتاتي هيں، يه واقعات كيوں هورهے هيں، اور ان كا آخري سبب كيا هے۔ اس كا جواب ان دريافتوں كے اندر نهيں هے۔
يه تمام كي تمام دريافتيں صرف درمياني تشريح (explaination) هيں، جب كه مذهب كي جگه لينے كے ليے ضروري هے كه وه آخري اور كلي تشريح دريافت كرے۔ اس كي مثال ايسي هي هے كه كسي مشين كےاوپر ڈھكن لگا هوا هو تو هم صرف يه جانتے هيں كه وه چل رهي هے۔ اگر ڈھكن اتار ديا جائے تو هم ديكھيں گے كه باهركا چكر كس طرح ايك اور چكر سے چل رها هے۔ اور وه چكر كس طرح دوسرے بهت سے پرزوں سے مل كر حركت كرتاهے۔ يهاں تك كه هوسكتا هے كه هم اس كے سارے پرزوں اور اس كي پوري حركت كو ديكھ ليں۔ مگر كيا اس علم كے معني يه هيں كه هم نے مشين كےخالق اور اس كے سببِ حركت كار از بھي معلوم كرليا۔ كيا كسي مشين كي كاركردگي كو جان لينے سے يه ثابت هوجاتا هے كه وه خود بخودبن گئي هے،اور اپنے آپ چلي جارهي هے۔ اگر ايسا نهيں هے تو كائنات كي كاركردگي كي بعض جھلكياں ديكھنے سے يه كيسے ثابت هوگيا كه يه سارا كارخانه اپنے آپ قائم هو اهے، اور اپنے آپ چلا جارها هے۔ هيريز (Arthur Harris) نے يهي بات كهي تھي جب اس نے ڈارونزم پر تنقيد كرتےهوئے كها:
Natural selection may explain the survival of the fittest, but cannot explain the arrival of the fittest.
(The Revolt against Reason by A. Lunn, p. 133)
يعني انتخابِ طبيعي كے قانون كا حواله صرف زندگي كے بهتر مظاهر باقي رهنے كي توجيهه كرتا هے۔ وه يه نهيں بتاتا كه يه بهتر زندگياں خود كيسے وجود ميں آئيں۔