انسان کا وجود، خدا کے وجود کا ثبوت
وسیع کائنات میں صرف انسان ہے، جو خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ حالاں کہ انسان کا خود اپنا وجود، خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اگر انسان جیسی ایک ہستی یہاں موجود ہے تو خدا بھی یقینی طورپر موجود ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صفتیں ناقص طورپر موجود ہیں، جو خدا کے اندر کامل طورپر موجود ہیں۔ اگر ناقص ہستی کا وجود ہے تو کامل ہستی کا بھی یقینی طورپر وجود ہے۔ ایک کو ماننے کے بعد دوسرے کو نہ ماننا، ایک ایسا منطقی تضاد ہے، جس کا تحمل کوئی بھی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔
ڈیکارٹ (Rene Descartes) مشہور فرنچ فلسفی ہے۔ وہ 1596 میں پیدا ہوا، اور 1650 میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے سامنے یہ سوال تھا کہ انسان اگر موجود ہے تو اس کی موجودگی کا عقلی ثبوت کیا ہے۔ لمبے غور وفکر کے بعد اس نے اس سوال کا جواب اِن الفاظ میں دیا— میںسوچتا ہوں ، اِس لیے میں ہوں:
I think, therefore I exist.
ڈیکارٹ کا یہ جواب منطقی اعتبار سے ایک محکم جواب ہے۔ مگر یہ منطق، جس سے انسان کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ بڑی بات کو ثابت کررہی ہے، اور وہ ہے خدا کے وجود کا عقلی ثبوت۔ اِس منطقی اصول کی روشنی میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا — سوچ کا وجود ہے، اِس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
Thinking exists, therefore God exists.
سوچ ایک مجرد (abstract) چیز ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ اِسی لیے خدا کا انکار کرتے ہیں کہ خدا انھیں ایک مجرد تصور معلوم ہوتا ہے، اور مجرد تصور کی موجودگی ان کے لیے ناقابلِ فہم ہے، یعنی ایک ایسی چیز کو ماننا جس کا کوئی مادّی وجود نہ ہو۔ لیکن ہر انسان سوچنے والی مخلوق ہے۔ خود اپنے تجربے کی بنیاد پر ہر آدمی سوچ کے وجود کو مانتا ہے۔ حالاں کہ سوچ مکمل طورپر ایک مجرد تصور ہے، یعنی ایک ایسی چیز جس کا کوئی مادّی وجود نہیں۔
اب اگر انسان ایک قسم کے مجرد تصور کے وجود کو مانتا ہے تو اُس پر لازم آجاتا ہے کہ وہ دوسری قسم کے مجرد تصور کے وجود کو بھی تسلیم کرے۔ یہ بلاشبہ خدا کے وجود کا ایک ایسا ثبوت ہے، جس کا تجربہ ہر آدمی کرتا ہے، اور جس کی صحت کو ہر آدمی بلا اختلاف مانتا ہے۔ اگر سوچ کے وجود کا انکار کردیا جائے تو اس کے بعد یقینی طورپر انسان کے وجود کا اور خود اپنے وجود کا انکار کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی آدمی اپنے وجود کا انکار نہیں کرسکتا، اس لیے کسی بھی آدمی کے لیے منطقی طورپر یہ ممکن نہیںکہ وہ خدا کے وجود کا انکار کرے۔
خدا کا غیر مرئی (invisible)ہونا، اِس بات کے لیے کافی نہیں کہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مرئی ہونے کی بنا پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ماڈرن سائنس کے زمانے میں ایک خلافِ زمانہ استدلال (anachronistic argument) ہے۔ اس لیے کہ آئن سٹائن (وفات 1955) کے زمانے میں جب ایٹم ٹوٹ گیا ،اور علم کا دریا عالم صغیر (microworld) تک پہنچ گیا تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ہر چیز غیر مرئی ہے۔ پہلے جو چیزیں مرئی (visible)سمجھی جاتی تھیں، اب وہ سب کی سب غیر مرئی(invisible) ہوگئیں۔ ایسی حالت میں عدم رُویت کی بنیاد پر خدا کے وجود کا انکار کرنا، ایک غیر علمی موقف بن چکا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے حسب ذیل دو کتابوں کا مطالعہ کافی ہے:
Science and the Unseen World, by Sir Arthur Eddington
Human Knowledge, by A. W. Bertrand Russel