كائناتي مشين
1965 كي جنگ ميں پاكستان كے پاس زياده بهتر هتھيار تھے۔هندستان كے وجينيت ٹينك كے مقابلے ميں پاكستان كا برطاني پيٹن ٹينك زياده اعليٰ تھا۔ هندستان كے فائٹر طیارے نیٹ (Gnat) كے مقابلے ميں پاكستان کے فائٹر طیارے سیبر جیٹ (Sabrejet) زياده طاقت كے ساتھ مار كرنے كي صلاحيت ركھتے تھے۔ پھر بھي هندستان كو جيت هوئي۔اس كي وجه كيا تھي۔ اس كي وجه يه تھي كه هندستان كے هتھيار اس كے اپنے بنائے هوئے تھے۔ وه ان كو استعمال كرنے كي مكمل مهارت ركھتا تھا جب كه پاكستان كے هتھيار بيروني ملكوں كے بنے هوئے تھے۔ چنانچه پاكستاني سپاهي ان كو مهارت كے ساتھ استعمال نه كرسكے ۔ ايك جنگي تبصره نگار نے اس كا تجزيه كرتےهوئے لكھاهے:
Even the most sophisticated technology of warfare is handled ultimately by men engaged in the profession of soldiering. Its use in combat depends therefore greatly on their skill, training, morale and ingenuity. The doctrine of the supremacy of the man behind the gun thus remains valid even in this age of push-button wars.
جنگ كي انتهائي پيچيده مشينري بھي آخر كار متعلقه فوجي آدميوں هي كے ذريعے چلائي جاتي هے۔ اس ليے جنگ ميںان كا استعمال بهت بڑي حد تك ان كي مهارت، تربيت، جرأت اور تدبير پر منحصر هوتاهے۔ قديم اصول كے مطابق بندوق كا استعمال كرنے والے آدمي كي اهميت آج بھي بدستور باقي هے، حتي كه اس بٹن دبانے والے دور ميں بھي (ٹائمس آف انڈيا، 2 فروري 1984ء)۔
مذكوره قسم كے واقعات كائنات كي مشيني تعبير كي ترديد هيں۔ هماري مشينوں كو چلانے كے ليے هميشه ايك ’’ انسان‘‘ دركار هوتاهے۔ پھر كيوں كر كهاجاسكتاهے كه كائنات كي عظيم مشين كسي چلانے والے كے بغير چل رهي هے۔ اس قياس كے ليے كوئي نظير موجود نهيں۔كائنات ايك سائنس دان كے الفاظ ميں بالفرض ايك ’’گريٹ مشين‘‘ هو، تب بھي اس كو چلانے كے ليے ايك ’’گريٹ مائنڈ‘‘ چاهيے۔ انسان مجبور هے كه خدا كو مانے، خواه مذهبي زبان ميں خالق ومالك كي حيثيت سے يا سائنسي الفاظ ميں مشين كو چلانے والے انجينئر كي حيثيت سے۔