ایک مثال
18-22 اپریل 1986 کو میں نے بھوپال کا سفر کیا ۔ يه سفر تامل ناڈو اكسپريس كے ذريعے هوا اور واپسي كا سفر بذريعه هوائي جهاز طے هوا۔19 اپریل کی صبح کو سو کر اٹھا، تو ہماری ٹرین مدھیہ پردیش کے میدانو ں میں دوڑ رہی تھی۔ جگہ جگہ درخت اور سبزہ کا منظر تھا۔ صبح کا سورج بلند ہوکر پوری طرح فضا کو روشن کر رہا تھا۔ اس قسم کی ایک دنیا کا وجود میں آنا تمام عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں پانی اور سبزہ ہو، جہاں سورج ایک خاص تناسب سے روشنی اور حرارت پہنچائے، جہاں بے شمار اسباب جمع ہوں، جس نے اس بات کو ممکن بنایا ہے کہ ایک ٹرین تیار ہو، اور زمين کی سطح پر تیز رفتاری کے ساتھ دوڑے۔
بنانے والے نے اس دنیا کو عجیب ڈھنگ سے بنایا ہے۔ یہاں واقعہ دکھائی دیتا ہے، مگر صاحبِ واقعہ نظر نہیں آتا۔ یہاں تخلیق (creation)کا منظر ہر طرف پھیلا ہوا ہے، مگر ان کے درمیان خالق (Creator) بظاہر کہیں موجود نہیں۔ اس صورتِ حال نے بہت سے لوگوں کو خد اکا منکر بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم خدا کو دیکھتے نہیں، تو ہم کیسے اسے مانیں، مگر خدا کے انکار کے لیے یہ بنیاد کافی نہیں۔
هم جس ٹرين پر سفر كررهے هيں وه ايك بهت بڑي ٹرين هے۔ وه 110كيلوميٹر في گھنٹه كي رفتار سے مسلسل دوڑ رهي هے۔ هم اس كے اندر بيٹھے هوئے منزل كي طرف چلے جارهے هيں۔ بہ ظاهر هم ريل كے ڈرائيور كو نهيں ديكھتے۔ اس كا نام بھي هم كو نهيں معلوم۔ مگر هميں يقين هے كه گاڑي كا ايك ڈرائيور هے، اور وهي اس كو چلا رها هے۔
هم كو يه يقين كيوں هے۔ منكرِ خدا كهيں گے، اس ليے كه اگرچه هم ڈرائيور كو نهيں ديكھتے، مگر هم اس كو ديكھ سكتے هيں۔ همارے ليے يه ممكن هے كه كسي بھي اسٹيشن پر اتر كر انجن كے پاس جائيں، اور وهاں اس كو ديكھيں۔ ليكن يه محض ايك مغالطه هے۔ اگر هم اسٹيشن پر اتر كر انجن كے پاس جائيں، اور گاڑي كے ڈرائيور كو ديكھيں تو هم كيا چيز ديكھيں گے۔ هم صرف هاتھ پاؤں والے ايك جسم كو ديكھيں گے۔مگر كيا يهي دكھائي دينے والا جسم هے جو گاڑي كو چلا رها هے۔ يقيناً نهيں۔ انجن كو چلانے والا دراصل ذهن هے، نه كه ظاهري جسم۔ چنانچه موت كے بعد ڈرائيور كا جسم پوري طرح موجود رهتاهے، مگر وه گاڑي كو چلا نهيں پاتا۔ حقيقت يه هے كه يهاں بھي وهي صورت حال هے — هم گاڑي كا ايك ڈرائيور مان رهے هيں، بغير اس كے كه هم نے ڈرائيور كو واقعي طورپر ديكھا هو۔
موجوده زمانے كے منكرينِ خدا كهتے هيں كه يه دنيا محض اتفاق سے بن گئي هے۔ اس كا كوئي موجد اور خالق نهيں۔ مگر موجوده كائنات جيسي با معني كائنات كا محض اتفاق سے ظهور ميں آنا ممكن نهيں۔ يه ايسا هي هے جيسے كسي كباڑ خانے ميں دھماكه هونے سے ايك اكسپريس ٹرين برآمد هوجائے يا اچانك ايك هوائي جهاز بن كر هوا ميں اڑنے لگے۔