عقیدۂ خدا اور سائنس
خالص سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔ سائنس نے اپنے طریقِ مطالعہ کے ذریعے جس چیز کو دریافت کیا ہے، وہ ہے— الیکٹران (electron) اور نیوٹران (neutron) اور پروٹان(proton)۔ مگر اِسی کے ساتھ یہ واقعہ ہےکہ اب تک کسی سائنس داں نے الیکٹرانس اور نیوٹرانس اور پروٹانس کو نہیں دیکھا ہے، نہ آنکھ سے اور نہ خورد بین سے، پھر سائنس داں اُن کے وجود پر یقین کیوں رکھتے ہیں۔ سائنس داں کے پاس اِس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہم اُن کو براہِ راست نہیں دیکھتے، لیکن ہم اُن کے اثرات (effects) کو دیکھ رہے ہیں:
Though we cannot see them, we can see their effects.
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف کاز اینڈ افیکٹ (cause and effect) کا مسئلہ نہیں ہے۔ اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں اعلی درجے کی ذہانت (intelligence)ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی ہم آہنگی (harmony) ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی منصوبہ بندی (planning) ہے۔ اس بات کو ٹاپ کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے۔ مثلاً جیمس جینز (James Hopwood Jeans, 1877-1946)، آرتھر ایڈنگٹن(Arthur Stanley Eddington, 1882-1944)، البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein, 1879-1955)، ڈیوڈ فوسٹر (David Foster) اور فریڈ ہائل (Fred Hoyle, 1915-2001)، وغیرہ۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ، ایک سائنس داں کے الفاظ میں، کائنات کی جنس ،ذہن (mind-stuff) ہے:
Molecular biology has conclusively proved that the “matter of organic life, our very flesh, really is mind-stuff.”
عقیدۂ خدا اور سائنس کے معاملے میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مذہب میں جس خدا کو بطورِ عقیدہ پیش کیاگیا تھا، وہ اگر چہ سائنس کا براہِ راست موضوع نہیں، لیکن سائنس کی دریافتیں بالواسطہ طورپر عقیدۂ خدا کی علمی تصدیق (affirmation) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سائنس نے خدا کے عقیدے کو ثابت نہیں کیا ہے، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ سائنس نے عقیدۂ خدا کے ثبوت کا ڈيٹا فراہم کردیا ہے۔سائنس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایک چیز مسنگ لنک (missing link) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ماڈل فعل (action) کو بتاتا تھا، مگر وہ فاعل (actor) کو نہیں بتاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں، قرآن کائنات کا جوماڈل دے رہاہے، اس میں فعل اور فاعل دونوں موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن میں سبب (cause) کے ساتھ مسبّب (causative factor) کو بھی بتایا گیاہے۔ سائنس جب فعل (ذہانت) کی تصدیق کررہی ہے تو منطقی طورپر اِس کا جواز نہیں کہ وہ فاعل (ذہن) کی تصدیق نہ کرے۔