ایک تقابل
قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا:قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی ذات کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے ليے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علّام الغیوب ہے،یعنی چھپی ہوئی باتوں کو بہت زیادہ جاننے والا۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔ یعنی وبضدها تعرف الأشياء:
It is in comparison that you understand
انسان کا کوئی کام خالی ازنقص(free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام مکمل طو رپر زیرو ڈفکٹ مینجمنٹ کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم هے۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔