مجبورانہ منطق
مجبورانہ منطق کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ مجبورانہ منطق میں آدمی کے پاس صرف ایک کا انتخاب (option) ہوتاہے۔ آدمی مجبور ہوتا ہے کہ اُس ایک انتخاب کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اس میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ مجبورانہ منطق کے معاملے میں صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو لازمی طورپر ماننا بھی ہے، اور ماننے کے لیے اس کے پاس ایک انتخاب کے سوا کوئی دوسرا انتخاب موجود نہیں۔
مجبورانہ منطق کی ایک قریبی مثال ماں کی مثال ہے۔ ہر آدمی کسی خاتون کو اپنی ماں مانتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ ایک خاتون کو اپنی ماں تسلیم کرے۔ حالاں کہ اُس نے اپنے آپ کو اُس خاتون کے بطن سے پیدا ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اِس کے باوجود وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ ماں مانتا ہے۔ یہ ماننا، مجبورانہ منطق کے اصول کے تحت ہوتا ہے۔ ایسا وہ اِس لیے کرتا ہے کہ اِس معاملے میںاُس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس کو ایک خاتون کو ہر حال میں اپنی ماں ماننا ہے۔ اِسی لیے وہ اپنی ماں کو یقین کے ساتھ اپنی ماں تسلیم کرلیتا ہے۔ کیوں کہ اِس کیس میں اُس کے لیے کوئی دوسرا انتخاب (option) موجود نہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے کا تعلق بھی اِسی قسم کی مجبورانہ منطق سے ہے۔ خدا کے وجود کے پہلو سے اصل قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ خدا کے وجود کو مانیں۔ کیوں کہ اگر ہم خدا کے وجود کو نہ مانیں تو ہمیں کائنات کے وجود کی، اور خود اپنے وجود کی نفی کرنی پڑے گی۔ چوں کہ ہم اپنی اور کائنات کے وجود کی نفی نہیں کرسکتے ، اِس لیے ہم خدا کے وجود کی بھی نفی نہیں کرسکتے۔