الکسس کیرل کا تبصرہ
گلیلیو کو جدید سائنس کا بانی اس لیے کہاجاتا ہے کہ گلیلیو نے ایک چیز کو دوسری چیز سے ڈی لنک (delink) كرديا۔ اس تعلق سے ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) لکھتے ہیں— گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں، اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا، جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں، اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا:
Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected. (Man, the Unknown, New York, 1939, p. 278)
کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) کو کمیاتی پہلو (quantitative aspect) سے الگ کرنے کے معاملے کو الکسس کیرل نے بظاہر ایک منفی واقعے کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی وہ واقعہ ہے، جو سائنس میں نئے انقلاب کا سبب بنا۔ اس علاحدگی (delinking) نے سائنسی تحقیق کے بند دروازے کو کھول دیا، جو فلسفہ کے زیرِ اثر سائنس پر بند پڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہر سائنسی شعبہ ، فزکس(physics)، فلکیات(astronomy)، کیمسٹری (chemistry)،وغیرہ ، میں تحقیقات ہونے لگیں۔ ان تحقیقات کا براہِ راست تعلق مذہب سے نہ تھا، مگر بالواسطہ طور پر وہ پوری طرح مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ سائنس کے شعبوں میں آزادانہ طور پر تحقیق ہونے لگی۔ اس طرح جو سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے والی تھیں۔
عملی طور پر گلیليو گليلي کے اس طریقِ کار کا مطلب تھا — اشیا کے قابل مشاہدہ جزء (observable aspect)کو اشیا کے ناقابل مشاہدہ جزء (unobservable aspect)سے الگ کردینا۔ اس سے پہلے اہلِ علم دونوں کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) نہیں کرسکے تھے۔ وہ ناقابل مشاہدہ پہلو کی دریافت میں مشغول ہونے کی بنا پر قابلِ مشاہدہ پہلو کی دریافت سے محروم بنے ہوئے تھے۔ اب یہ ہوا کہ سارا فوکس چیزوں کے قابلِ مشاہدہ پہلو پر آگیا۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ قابلِ مشاہدہ پہلو کو دریافت کرکے ناقابلِ مشاہدہ پہلو تک پہنچنا ممکن ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ علمی طور پر یہ ممکن ہوگیا کہ قابل مشاہدہ مخلوق کو دریافت کرکے ناقابل مشاہدہ خالق کی بالواسطہ معرفت حاصل کی جاسکے،یعنی وہ طریقہ جس کو استنباطی طریقہ (inferential method) کہا جاتا ہے۔
سائنسی تحقیق میں اس طریقِ کار کے استعمال کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابلِ دریافت ہوگئیں۔ چنانچہ بیسویں صدی میں اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالات اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔یہاں اس قسم کی صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:
اللہ یتجلی فی عصر العلم
مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968۔
راقم الحروف اپنے بارے میں شاید یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اس کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا۔ عربی ٹائٹل کا نام ہے: الاسلام یتحدی۔ یہ عربي ورژن پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپا، اور یہ 196 صفحات پر مشتمل تھا۔اس کے بعد اس کے بہت سے ایڈیشن بار بار شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، گاڈ ارائزز (God Arises)کے نام پہلی بار 1987 میں دہلی سے شائع ہوا۔
کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) کو کمیاتی پہلو (quantitative aspect) پہلوؤں کی تفریق (delinking) کے بعد جو سائنسی معلومات سامنے آئیں، ان کو استعمال کرکے مذہب کی صداقت از سرِ نو ثابت شدہ بن گئی۔