عقلی موقف
خدا کے وجود کے معاملے میں اصل غور طلب بات یہ ہے کہ خالص عقلی نقطۂ نظر سے ہم کیا موقف اختیار کرسکتے ہیں،اور کیا نہیں۔ اِس کے سوا کوئی اور طریقہ اِس معاملے میں سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کائنات میں انتہائی معیاری حد تک نظم پایا جاتا ہے۔ نظم کا یہ معاملہ ہر آدمی کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ مذکورہ مضمون نگار نے ایٹم کی ساخت کو لے کر اِسی معاملے کی ایک سائنسی مثال دی ہے۔ اِس لیے جہاں تک کائنات میں نظم کا سوال ہے،یہ ہر فریق کے نزدیک، ایک مسلّم حقیقت ہے۔
عقلی موقف کے اعتبار سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ نظم کا تصور ناظم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جہاں نظم ہے، وہاں یقینا اس کا ایک ناظم موجود ہے۔ ناظم کے بغیرنظم کا تصور عقلی اعتبار سے محال ہے۔ نظم کی موجودگی ایک مجبورانہ منطق (compulsive logic) پیدا کرتی ہے، یعنی کسی بھی عذر کے بغیر ناظم کی موجودگی کا اقرار کرنا۔ کسی کے ذہن میں ناظم کی موجودگی کی توجیہہ نہ ہونا، اُس کو یہ منطقی جواز نہیں دیتا کہ وہ ناظم کی موجودگی کا انکار کردے۔
ایٹم کے ڈھانچے کی مثال لے کر مضمون نگار نے جو بات کہی ہے، وہی اِس دنیا کی ہر چیز کے بارے میں درست ہے۔ اِس دنیا کا ہر جُز، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ اِس قدر محکم اور متناسب ہے کہ اس کے ڈھانچے میں کوئی بھی تغیر سارے نظام عالم کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
مثال کے طورپر ہمارے سیارۂ زمین میں جو کشش (gravity) ہے، وہ آخری حد تک ہماری ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر زمین کی کشش نصف کے بقدر زیادہ ہوجائے، یا نصف کے بقدر کم ہوجائے تو دونوں حالتوں میں سیارۂ زمین پر انسانی تہذیب کا بقاناممکن ہوجائے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلا میں ہمارے دو قریبی پڑوسی ہیں— سورج اور چاند۔ اگر ایسا ہو کہ سورج وہاں ہوجہاں آج چاند ہے، اور چاند وہاں ہو جہاں آج سورج ہے، تو زمین پر انسانی زندگی تو درکنار خود زمین جل کر ختم ہوجائے گی۔
ہماری زمین پر تمام چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ لیکن درخت کا معاملہ استثنائی طورپر یہ ہے کہ اس کی جڑیں تو زمین میں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس کا تنا اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ درخت میں یہ دو طرفہ خصوصیت نہ ہو تو اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرے بھرے درختوں کا خاتمہ ہوجائے گا، وغیرہ۔