کائناتی نشانیاں
ایس ٹی کا لرج(1772-1834)ایک مشہور انگریزی تنقيد نگار، فلاسفر اور شاعر ہے۔ اس کی ایک نظم کا عنوان ہے:
The Rhyme of the Ancient Mariner
اس نظم میں شاعر نے دکھایا ہے کہ ایک ملاح اپنے کسی گناہ کے سبب سمندر میںپھنس گیا ہے۔ اس کے پاس پینے کے ليے میٹھا پانی نہیں ہے۔ کشتی کے چاروں طرف سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ مگر کھاری ہونے کی وجہ سے وہ ان کو پی نہیں سکتا۔ وہ پیاس سے بے تاب ہو کر کہتا ہے — ہر طرف پانی ہی پانی، مگر ایک قطرہ نہیں جس کو پیا جاسکے:
Water, water everywhere / Nor any drop to drink.
جو حال کالرج کے خیالی ملاح کا ہوا، وہی حال امکانی طورپر اس دنیا میں تمام انسانوں کا ہے۔ انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پانی کا تمام ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے، جن میں 1/10 حصہ نمک ملا ہوا ہے۔ اس بنا پر سمندر کا پانی اتنا زیادہ کھاری ہے کہ کوئی آدمی اس کو پی نہیں سکتا۔
اس کا حل قدرت نے بارش کی صورت میں نکالا ہے۔ سورج کی گرمی کے اثر سے سمندروں میں تبخیر (evaporation) کا عمل ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا کی طرف اٹھتا ہے، مگر مخصوص قانونِ قدرت کے تحت اس کے نمک کا جزء سمندر میں رہ جاتا ہے ،اور صرف میٹھے پانی کا جزء اوپر جاتا ہے۔ یہی صاف کیا ہوا پانی بارش کی صور ت میں دوبارہ زمین پر برستا ہے، اور انسان کو میٹھا پانی عطا کرتا ہے، جس کی انسان کو سخت ترین ضرورت ہے۔
بارش کا عمل ازالۂ نمک (desalination) کا ایک عظیم آفاقی عمل ہے۔ آدمی اگر صرف اس ایک واقعے پر غور کرے تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ وہ خداکے کرشموں کے احساس سے رقص کرنے لگے۔