یہ فرضی داستانیں
مشہور ہے کہ قبل از اسلام کے عرب شاعر مہلہل تغلبی کے یہاں جب اس کی لڑکی لیلہ پیداہوئی تو اس نے اس کو زندہ درگور کردینے کا حکم دے دیا۔ مگر بچی کی ماں نے اس کو چھپا دیا۔ رات کو مہلہل نے خواب دیکھا کہ ایک شخص اس کو بتا رہا ہے کہ اس کی لڑکی ایک قابل لڑکا جنے گی ۔ صبح ہوئی تو اس نے لڑکی کے بارے میں پوچھ گچھ کی ۔ اس کو بتایا گیا کہ وہ اس کے حکم کے مطابق زندہ دفن کر دی گئی ہے ۔ مہلہل نے نہ مانا۔ اس نے مزید اصرار شروع کیا۔ آخر کار لڑکی اس کے سامنے پیش کی گئی ۔ اس نے حکم دیا کہ اس کو عمدہ غذائیں کھلائی جائیں ۔
اس لڑکی کی شادی کلثوم سے ہوئی ۔ اب لڑکی اکثر خواب دیکھنے لگی کہ کوئی شخص آتا ہے اور اس کے ہونے والے بچہ کے بارے میں عجیب عجیب باتیں بتاتا ہے ۔ بالآخر اس کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا ۔ یہی وہ مشہور شاعر ہے جس کو دنیا عمرو بن کلثوم کے نام سے جانتی ہے۔
تاریخ ادب کے ناقدین اس قصہ کو من گھڑت کہتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ قصہ عمرو بن کلثوم کی شہرت کے بعد فرضی طور پر بنا لیا گیا ہے ۔ مگر اسی قسم کے ، اس سے زیادہ من گھڑت قصے ’’بزرگوں ‘‘ کے بارے میں تصنیف کر لیے گئے ہیں اور ان کو لوگ اس طرح پڑھتے اور سنتے ہیں، جیسے وہ وحی آسمانی ہو۔ جس چیز کے ساتھ تقدس کا عنصر شامل ہو جائے وہ ہر جانچ سے بالا تر ہو جاتی ہے ۔ بالکل بے اصل کہانیوں کو لوگ اس طرح ماننے لگتے ہیں، جیسے وہ کوئی حقیقی تاریخ ہو۔
