حقائق غالب آئے
پاکستان کے لیڈروں کا خیال تھا کہ برصغیر کے مغرب میں جب وہ مسلم حکومت قائم کر لیں گے تو پور امغربی ایشیا اور خلیج فارس اور بحراحمر کے گرد واقع تمام ممالک جو انھیں کی طرح مذہباً مسلمان ہیں ، ان کے ساتھ ہوں گےاور وہ بقیہ بھارت کے مقابلہ میں چھوٹے ہونے کے باوجود اپنے بھائیوں سے مل کر بہت بڑی حیثیت حاصل کر لیں گے۔
صدر ایوب کے زمانہ اقتدار (1969-1958ء)میں یہ امید کسی درجہ میں پوری بھی ہوئی ۔ مگر بہت جلد زندگی کے حقائق غالب آگئے۔ مغربی ایشیا کے مسلم ممالک کے یہاں پٹرول کا خزانہ بر آمد ہوا ۔ اب انھیں ضرورت ہوئی کہ اس دولت کے ذریعہ اپنے ملکوں میں ترقیاتی اسکیمیں چلائیں ۔ ان کے پاس روپیہ با فراط تھا، مگر فنّی واقفیت (Technical Know How) کی اسی قدر کمی تھی۔ یہ دوسری چیز انھیں پاکستان نہیں دے سکتا تھا۔ دوسری طرف ہندستان پچھلے سو برس کی کوششوں کے نتیجہ میں اپنے کو اس قابل بنا چکا تھا کہ وہ مسلم ملکوں کی اس ضرورت کو پورا کر سکے ۔ چنانچہ ہندستان کے ماہرین کو آج مسلم ممالک میں زبر دست استقبال مل رہا ہے اور پاکستان پس پشت چلا گیا ہے ۔
اخباری شہنشاہ
یونسکو نے 200 قوموں کے ماس میڈیا کے بارے میں ایک سروے شائع کیا ہے ۔ سروے کے مطابق اگر چہ موجودہ زمانہ میں نشر و اشاعت کے ذرائع ترقی کر کے سٹلائٹ کمیونی کیشن کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ مگر عملاً جو صورت حال ہے وہ یہ کہ ٹیکنکل اعتبار سے چند ترقی یافتہ قومیں ہی دوسری تمام قوموں کے لیے خبر حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ اگر چہ 90 ملکوں میں قومی نیوز ایجنسیاں ہیں، مگر یہ ممالک بھی اپنی ملکی خبروں کو دوسری اقوام تک پہنچانے کے لیے پانچ عالمی نیوز ایجنسیوں کے محتاج ہیں۔ یہ پانچ عالمی نیوز ایجنسیاں کسی ملک کی جن خبروں کو دوسری اقوام تک پہنچاتی ہیں، وہ عام طور پر اس قوم کے برے پہلو اور ان کی غیر نمائندہ خصوصیات ہی ہوتی ہیں — گویا پانچ نیوز ایجنسیاں تمام اخباری دنیا کی شہنشاہ ہیں ۔
انسان اور کچھوا
ہندستان میں سب سے پہلا چڑیا گھر 1875ء میں قائم ہوا۔ یہ کلکتہ کے قریب علی پور میں ہے۔ اس کو لوئی شیوینڈ لر (Carl Louis Schwendler, 1803-1882)نے قائم کیا تھا۔ 1875 میں یہاں ایک کچھوا تھا جس کی عمر اس وقت 50 سال تھی۔ یہ کچھوا آج بھی علی پور زو (zoo) میں موجود ہے اور اب اس کی عمر 150سال ہو چکی ہے۔ ایک اخباری تصویر ( ایوننگ نیوز 29 رستمبر 1975) میں ایک لڑکے کو کچھوے کے اوپر بیٹھا ہوا دکھایا گیا ہے — انسان کچھوے کی طرح 150سال تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔ مگر انسان کا ایک بچہ کچھوے کی پیٹھ پر سوار ہو سکتا ہے۔
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے سیاہ فام قدیم باشندے تقریباً 25ہزار سال پہلے اس بر اعظم میں آئے تھے۔ علم الانسان کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لوگ پیدل چل کر یہاں پہنچے تھے، جب کہ آسٹریلیا ، نیوگنی اور ایشیا سے ملا ہو اتھا۔ اس کے بعد آسٹریلیا کٹ کر دور چلا گیا۔ یہ قدیم باشندے اب بھی 140000کی تعداد میں موجود ہیں۔ یعنی 1973-1972میں آسٹریلیا کی کل آبادی (تقریباً 13268600) کا ایک فی صد حصہ ۔
