خود نمائی کے شوق میں
ایک صابن ہے ۔ اس کا اشتہار اخبارات میں ایک خاص منظر کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ اس منظر میں ایک لڑکی آبشار کے نیچے نہاتی ہوئی دکھائی گئی ہے۔ یہ منظر کسی آرٹسٹ کے برش نے نہیں بنایا ہے ۔ وہ ایک حقیقی منظر ہے ۔ یہ مہم 1969 میں شروع کی گئی اور برسوں کے بعد تکمیل کو پہنچی ۔ اس مقصد کے لیے ایک خاص لڑکی کا انتخاب کیا گیا۔ جنگل ، سمندر اور دوسرے مقامات کا تجربہ کرنے کے بعد بالآخر آبشار کے غسل کو سب سے زیادہ موزوں سمجھا گیا ۔ کیوں کہ آبشار کے گرتے ہوئے پانی میں نہانے کا منظر سب سے زیادہ عوامی کشش رکھتا تھا ۔ مختلف آبشاروں کا جائزہ لینے کے بعد کو ڈائی کنال کو مقامِ غسل کے لیے چنا گیا۔
سب سے مشکل یہ تھا کہ یہ کام صرف جاڑوں میں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ اسی موسم میں پہاڑی آبشاروں میں تیز دھارا ہوتا ہے ۔ دوسری طرف اس مقصد کے لیے ایک نازک لڑکی کا انتخاب ضروری تھا ،جو نہاتے وقت ’’ پانی کی پری ‘‘ معلوم ہو ۔ یہ ایک جان جو کھم منصوبہ تھا۔ مگر ماڈلنگ کے پیشہ نے اس کو آسان بنا دیا۔ ایڈور ٹائزنگ کمپنی کا عملہ جس کو انتظام کرنا اور فوٹو لینا تھا، مکمل طور پر گرم کپڑوں سے لدا ہوا تھا۔ دوسری طرف ان کی پارٹی کی سب سے زیادہ نازک اور کمزور ممبر صبح 7بجے ٹھٹھرتے ہوئے پانی کے ریلے میں چھلانگ لگاتی تھی۔ پھسلتی ہوئی چٹانوں پر پانی کے مسلسل گرتے ہوئے دریا کے نیچے اس کو اس طرح نہانا پڑتا تھا کہ اس کے چہرے پر صرف فرحت اورخوش گواری کی ہنسی ہو ۔ خوف اور گھبراہٹ کی کوئی علامت اس پر ظاہر نہ ہونے پائے ۔ کیڑے مکوڑے اور پانی کے سانپ ان سب کے علاوہ تھے ۔ کمپنی کے لوگوں کو کبھی لڑکی کو جگانا نہیں پڑا۔ وہ ہر روز صبح کو 5 بجے اپنے گھر پر تیار ملتی تھی ۔
یہ واقعہ درجن سے زیادہ بار دہرایا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں فوٹو لیے گئے ۔ پھر اس ایک فوٹو کا انتخاب ہوا جو آج لوگوں کو اخبار کے اشتہارات میں نظر آتا ہے ۔ لڑکی کے لیے اس ایک فوٹو کی قیمت تھی پندہ ہزار روپیہ — ماڈلنگ کا یہ پیشہ آج ساری دنیامیں بہت بڑے پیمانہ پر رائج ہے ۔
’’ کیا چیز ہے جو لڑکوں اور لڑکیوں کو ماڈلنگ کے اس سخت کام کی طرف راغب کرتی ہے ‘‘ ۔ ایڈورٹائزنگ کمپنی کے ایک افسر نے اس سوال کے جواب میں کہا:
It is, primarily, a case of vanity (Famina, 22 july 1978)
بنیادی طور پر اس کی وجہ نمودو نمائش کا جذبہ ہے ۔ کیوں کہ اس کے بعد ہر طرف اس کو اخبارات ورسائل میں اپنا چہرہ چھَپا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے— خود نمائی کا یہ جذبہ جو ایک ’’پروفیشنل ماڈل‘‘ کو جان جو کھم کام کی طرف لے جاتا ہے، وہی ایک ’’لیڈر‘‘ کے کام کا محرک بھی ہے ۔ اگرچہ اول الذکر کے مظاہروں کو پیشہ ورانہ نمائش کہا جاتا ہے اور ثانی الذکر کے اسی قسم کے مظاہروں کو قربانی کے پُر فخر نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ انسان کا حقیقی کمال یہ ہے کہ وہ خود نمائی کے شوق سے اوپر اٹھ جائے ۔ اگرچہ تمام کاموں میں انسان کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام یہی ہے ۔
