مرداں چنیں کنند
لارڈ ٹامسن (1976-1923) کی پیدائش کناڈا میں ہوئی۔ انھوں نے اخبارات کو صنعت کی حیثیت سے شروع کیا اور اس میں اتنی کامیابی حاصل کی کہ اب تک اخبارات کے کسی بھی دوسرے تاجر نے حاصل نہ کی تھی۔ کناڈا، برطانیہ، امریکا اور دوسرے ملکوں کے ایک سو سے زیادہ اخبارات ٹامسن ایمپائر کا حصہ تھے۔
ٹامسن بے حد شریف آدمی تھا۔ اخلاقی حیثیت سے کبھی اس سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔ ایڈیٹروں کے انتخاب میں وہ انتہائی چھان بین کرتا تھا۔ مگر جب کسی شخص کو کسی اخبار کا ایڈیٹر مقرر کر دیتا تو اس کو اپنے دائرۂ عمل میں مکمل آزادی دے دیتا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے ایڈیٹروں کو یہ حق بھی تھا کہ وہ خود ٹامسن کے خلاف مضامین لکھ سکیں۔
ٹامسن کی سوانح عمری رسل بریڈن نے لکھی ہے جس کا نام ہے:
Roy Thomson of Fleet Street, 1965
سوانح نگار لکھتا ہے کہ ٹامسن کی واحد کمزوری یہ تھی کہ وہ ’’لارڈ‘‘ بننے کا بہت زیادہ حریص تھا۔ اس نے دیکھا کہ اپنے ملک کناڈا میں اس کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکے گی۔ کیوں کہ کناڈا نے لارڈ کا خطاب دینے کے برطانوی طریقے کو ختم کر دیا تھا۔ چنانچہ ٹامسن نے برطانوی شہریت اختیار کر لی۔
اسے یقین تھا کہ برطانیہ آنے کے بعد وہ ضرور لارڈ بننے کا خواب پورا کر سکے گا۔ مگر یہاں بھی ایک رکاوٹ سامنے آ گئی۔ہرولڈ میکملن کے بعد لارڈ ہوم برطانیہ کے وزیر اعظم (64-1963) مقرر ہوئے۔ ٹامسن کے مشہور اخبار ’’ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر اس وقت ڈینس ہملٹن تھے۔ انھیں اس تقرر پر اعتراض تھا۔ انھوں نے خاموش رہنے کے بجائے کھلم کھلا وزیر اعظم کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔
ٹامسن کے لیے یہ ایک انتہائی نازک صورت حال تھی۔ انھوں نے اپنے ایڈیٹر کو گفتگو کے ذریعہ قائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر جب وہ اپنی رائے بدلنے پر تیار نہ ہوا تو انھوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بلکہ یہ کہہ کر معاملہ کو ختم کر دیا:
What you say is your own province
یعنی یہ تمہارے اپنے دائرۂ کار کا معاملہ ہے۔ تم کو اختیار ہے کہ جو کچھ لکھنا چاہتے ہو لکھو۔
برطانوی شہریت اختیار کرنے کے باوجود ٹامسن کے لیے اب بظاہر ’’لارڈ‘‘ بننے کا امکان ختم ہو چکا تھا۔ ان کا اخبار برابر برطانوی وزیر اعظم پر تنقیدی مضامین شائع کر رہا تھا۔ مگر سرالیک ڈوگلاس ہوم (Alec Douglas-Home)نے بھی عالی ظرفی سے کام لیا۔ صاحب اقتدار ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اپنے دل میں ٹامسن کے خلاف کوئی انتقامی جذبہ پیدا ہونے نہیں دیا۔ اور ان کے لیے لارڈ کے اعزاز کی منظوری دے دی۔
یہی عالی ظرفی ہے، جو افراد اور قوموں کو ترقی کے اعلیٰ مقام کی طرف لے جاتی ہے۔
