تمہید
انسان کی زندگی میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ گویا تاریخ کی عملی کتاب کے اوراق ہیں ۔ یہاں زندگی کی تمام حقیقتیں اپنے واقعاتی روپ میں متشکل ہو رہی ہیں ۔ زندگی کی تلخیاں اور شیرینیاں ، کردار کی پستیاں اور بلندیاں اور خارجی حقائق کے مقابلہ میں انسان کی رسائی اور نارسائی، سب یہاں کسی نہ کسی کی زندگی میں صورت پذیر ہو رہی ہیں ، سب کو تاریخ کے واقعاتی اسٹیج پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
تاہم دیکھنے کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک یہ کہ زندگی کے واقعات کو بس ایک سر سری تماشائی کی نظر سے دیکھا جائے ۔ یہ دیکھنا گویا کیمرہ جیسا دیکھنا ہے، جو دیکھتا ہے مگر نصیحت نہیں لیتا۔ وہ دیکھنے کے بعد بھی کچھ نہیں پاتا۔
دوسرا دیکھنا یہ ہے کہ ان واقعات کو ’’انسان ‘‘کی نظر سے دیکھا جائے ۔ یعنی آدمی جو کچھ دیکھے ان پر وہ غور بھی کرے ۔ اس کی آنکھ نے جو کچھ پایا ہے، اس کو وہ اپنے دماغ سے بھی پانے کی کوشش کرے ۔
بظاہر دونوں دیکھنا بالکل یکساں معلوم ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ان میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ صرف دوسری قسم کے دیکھنے ہی کو دیکھنا کہا جا سکتا ہے ۔ پہلی قسم کا دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے نہ دیکھنا۔ انسان کے اندر اعلیٰ ترین صلاحیت فہم وبصیرت کی صلاحیت ہے۔ آدمی جس چیز کو فہم وبصیرت کی سطح پر نہ پائے، اس کو انسان کا پانا نہیں کہا جا سکتا۔
انسان کی زندگی اپنی متنوع صورتوں کے ساتھ ہر قسم کے واقعات کا ریکارڈ ہے ۔ ہر انسان کی زندگی میں دوسرے انسان کے لیے سبق موجود ہے ۔ آدمی اگر آنکھ کھول کر دنیا میں رہے تو اپنے ہم جنسوں (fellow human being)کے واقعات میں وہ اتنی کافی رہنمائی پا لے کہ ہر قسم کے نشیب وفراز کو سمجھ کر زندگی گزارنا اس کے لیے ممکن ہو جائے ۔ وہ ہر ٹھوکر سے دور رہے ، وہ ہر پست حرکت سے اپنے آپ کو بچائے ، وہ ہر نادانی میں پڑنے سے محفوظ رہے ۔
مگر کوئی انسان اپنے گردوپیش کے واقعات سے سبق نہیں لیتا ۔ آدمی کسی حقیقت کو اس وقت تک نہیں مانتا جب تک اس کو ذاتی طور پر اس کا تجربہ نہ ہو جائے ۔ مگر تجربہ وہی ہے جو دوسروں سے حاصل ہو ، کیونکہ اپنا تجربہ تو ہمیشہ ہلاکت کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے ۔
انسانی واقعات سے نصیحت لینے کے لیے عبرت کی نگاہ درکار ہے ، اور یہی وہ چیز ہے جو ہر دور کے انسانوں میں سب سے کم پائی گئی ہے۔
وحید الدین
16اکتوبر 1981ء
