اسلامی تاریخ پر مطالعہ
ڈاکٹر تارا چند جنھوں نے اسلامی تاریخ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر تارا چند (1973-1888)فارسی زبان بہت اچھی جانتے تھے ۔ اسی لیے پنڈت نہرو نے 1952ء میں ان کو ایران کا سفیر مقرر کیا تھا۔ انھوں نے سِرّ اکبر (اپنشد کا فارسی ترجمہ ازدار اشکوہ) کو ایڈٹ کیا تھا جس کو حکومت ایران نے خصوصی اہتمام کے ساتھ چھپوایا۔
1913ء میں انھوں نے میور سنٹرل کالج الہ آباد سے امتیاز کے ساتھ تاریخ میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد وہ کائستھ پاٹھ شالہ (ڈگری کالج ) میں استاد ہو گئے۔ کائستھ پاٹھ شالہ ٹرسٹ کے صدر کرنل رنجیت سنگھ ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے ۔ انھوں نے ٹرسٹ کے اگزیکٹیو کے سامنے تجویز پیش کی کہ نوجوان استاد کو ریسرچ کے لیے یورپ بھیجا جائے ۔ بیشتر ممبروں نے شدت سے اس تجویز کی مخالفت کی ۔ مگر کرنل رنجیت سنگھ نے بزور اس تجویز کو منظور کر ا یا اور ان کے سفر کے تمام انتظامات کیے ۔
اس کے بعد ڈاکٹر تارا چند آکسفورڈ گئے ۔ وہاں وہ کوئنس کالج میں تین سال (1922-1919) رہے، اور ڈی فل کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کے مقالہ کا عنوان تھا— ہندستانی کلچرپر اسلام کا اثر :
The influence of Islam on Indian culture
حکومت ہند کی وزارت تعلیم کے تحت انھوں نے ہندستا ن کی آزادی کی تاریخ پر چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی ۔ اس کی کتاب کی تیاری میں اپنی آخری زندگی کے 14 سال صرف کیے ۔ اس کتاب کی پہلی جلد 1961 میں اور چوتھی جلد 1973 میں شائع ہوئی ۔
مسٹر سریش رام نے بجا طور پر لکھا ہے کہ یہ کتاب ڈاکٹر تارا چند کے غیر جانب دارانہ راے قائم کرنے (dispassionate judgment) کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔ 1937 میں یوپی میں کانگریس کا مسلم لیگ کو وزارت میں شریک نہ کرنا ایک انتہائی نزاعی مسئلہ ہے۔ مگر اس کے بارے میں ڈاکٹر تارا چند نے لکھا
Admitting that there could be two opinions concerning the constitutional propriety of the decision to refuse the appointment of the Muslim leaguers to the Congress cabinet, it is difficult to justify its wisdom. (Vol. 4, P.238)
یہ مانتے ہوئے کہ کانگریس کابینہ میں مسلم لیگی نمائندوں کو شریک کرنے کی قانونی اہمیت پر دورائیں ہو سکتی ہیں ، اس کی معقولیت کو ثابت کرنا سخت مشکل ہے۔ (نیشنل ہیرلڈ،لکھنو، 7 نومبر 1976ء )
ڈاکٹر تارا چند کا خاتمہ بظاہر اس بات کی علامت تھا کہ غیر مسلموں میں وہ نسل اب ختم ہو گئی جو اردو، عربی ، فارسی زبانیں جانتی ہو اور اسلامی تاریخ اور مسلم تہذیب کے پس منظر میں سوچنے کی علمی صلاحیت رکھتی ہو ۔ مگر حالیہ برسوں میں پٹرول کی کرامت نے از سر نو عربی اور فارسی کو زندہ کر دیا ہے ۔ اب مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم ان موضوعات میں داخلے لے رہے ہیں ۔ یہ بھی شاید بالواسطہ طور پر اس حدیث نبوی کی تصدیق ہے کہ یہ دین ہمیشہ زندہ رہے گا، سیاسی اور زمانی انقلابات کبھی اس میں کامیاب نہ ہوں گے کہ خدا کے دین کو ماضی کی چیز بنا کر تاریخ کی المار ی میں بند کر دیں ۔
