ہمت کے ذریعہ

سیف اللہ خاں (پیدائش 1952ء) ایک نوجوان انجینئر ہیں۔ وہ ٹونک (راجستھان) کے ایک شریف خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے گھر کے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ ہائر سکنڈری میں انھوں نے سائنس لی تھی، مگر اچھے نمبر نہ لا سکے ۔ ہائر سکنڈری کا نتیجہ آیا تو اس نے ان کو صرف یہ خبر دی کہ وہ ’’علم کے دروازہ ‘‘ میں داخل ہونے کی کوشش میں ناکام ہو چکے ہیں ۔

سیف اللہ خان بازی ہا ر چکے تھے، مگر وہ ہمت نہیں ہارے تھے ۔ ہائر سکنڈری کے امتحان میں ناکامی نے ان کے اندر حوصلہ کا ایک نیا طوفان پیدا کر دیا ۔ انھوں نے محسوس کیا کہ گھر کے حالات ان کے لیے مزید تعلیمی جدوجہد کے سلسلہ میں حوصلہ افزا ثابت نہ ہوں گے ۔ انھوں نے ایک نئے اقدام کا فیصلہ کیا ۔ وہ اپنا آبائی وطن ٹونک چھوڑ کر بھوپال چلے گئے، اور جاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ اب میں ٹونک اسی وقت واپس آؤں گا، جب کہ میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لوں ۔

سیف اللہ خان بھوپال میں اکیلے تھے ۔ مگر اکیلے ہو کر انھوں نے اپنے کو زیادہ طاقتور بنا لیا تھا۔ اب نہ ان کے شاعر دوست تھے جو اپنی ’’تازہ غزل‘‘ سنا کر ان کا وقت چھیننے کی کوشش کریں۔ نہ گھر کے وہ حالات ان کے سامنے تھے، جو ان کے ذہن کو مسلسل منتشر کرتے رہتے تھے۔ نہ وہ ماحول تھا جو ان کی ناکامی کو یاد دلا کر ان کے حوصلے پست کر دیتا تھا ۔ اب وہ تھے اور ان کی جدوجہد تھی ۔ انھوں نے ٹیوشن کے ذریعہ اپنی ضروریات کا انتظام کیا اور خاموشی کے ساتھ تعلیمی محنت میں لگ گئے ۔ ہر سہارے کا ٹوٹنا ان کے لیے زیادہ بڑا سہارا بن گیا۔ کیوں کہ اس نے ان کی چھپی ہوئی تمام قوتوں کو جگا دیا تھا۔

سیف اللہ خاں نے بھوپال میں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے بے پناہ جدوجہد کی۔ پہلے انھوں نے انجینئرنگ کا ڈپلوما لیا۔ اس کے بعد ان کو بھوپال میں ایک ملازمت مل گئی۔ اب وہ ٹیوشن کی دوڑ دھوپ سے آزاد ہو گئے ۔ تاہم انھوں نے تعلیم نہیں چھوڑی ۔ ملازمت کے دوران ہی انھوں نے بھوپال سے 70 میل دور ودیشہ کے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا اور بالآخر وہاں سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر لی ۔ تقریبا ً آٹھ سال تک ان کا معمول یہ تھا کہ صبح 4 بجے اٹھنا، دو گھنٹہ ریل کے سفر کے بعد ودیشہ پہنچنا ، وہاں کلاس میں حاضری دے کر واپس آنا اور پھر ملازمت کی ڈیوٹی انجام دینا ، اور ا س سے فراغت کے بعد کورس کی کتابیں پڑھنا ۔ اس دوران ان کے گھر میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ بھوپال کے تقریباً دس سالہ قیام میں ان کو طرح طرح کے خطوط ملتے رہے ۔ مگر وہ ہر خط کو پڑھ کر نہایت خاموشی سے رکھ دیتے ۔ وہ یکسوئی کے ساتھ 10 سال تک اپنے عہد پر قائم رہے ۔ انھوں نے کسی بات کا اثر لیے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ اپنے لیے کامیاب زندگی حاصل کرنے کی تڑپ نے ان کے اندرونی احساس کو اتنا طاقتور کر دیا کہ تمام ناموافق حالات کے باوجود انھوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور بالآخر اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom