کرنے کا کام
مولانا عبد الماجد دریا بادی (1977-1892ء) کے دادا مفتی محمد مظہر کریم صاحب اپنے وقت کے ایک ممتاز عالم تھے ۔ 1857ء کے ہنگامہ میں علما نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا جو فتویٰ دیا۔اس پر ان کے بھی دستخط تھے ۔ اودھ کے دوسرے علما مثلاً مولانا فضل حق خیر آبادی ، مفتی عنایت احمد (مؤلف علم الصیغہ ) وغیرہ کے ساتھ انھیں بھی حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا ملی۔
قید کے زمانہ میں کوئی کام نہیں تھا۔ چنانچہ مولانا مظہر کریم صاحب نے ایک ضخیم عربی کتاب کا اردو ترجمہ کر ڈالا ۔ وہاں کے انگریز افسر کو اس کی خبر ملی تو اُس نے اس کو ایک ’’علمی کارنامہ‘‘ قرار دیا ، اور اتنا خوش ہوا کہ حکومت سے ان کے حق میں پر زور سفارش کی ۔ اس سفارش کے بعد اگرچہ فوری طور رپر ان کی رہائی نہ ہو سکی، تاہم ان کی قید کی میعاد میں کافی کمی کر دی گئی — سیاسی حریف کی حیثیت سے انگریز مولانا مظہر کریم کا دشمن تھا، علمی اور تعمیری کام کرنے والے کی حیثیت سے وہ ان کا دوست بن گیا۔
یہ چھوٹا سا واقعہ ہماری جدید تاریخ کی تصویر ہے ۔ جن میدانوں میں ہمارے لیے کام کے مواقع تھے ، وہاں کام کرنے سے ہم کو کوئی دلچسپی نہیں ہوئی، اور جس میدان میں کام کا موقع نہیں ہے ، وہاں ہم اپنا سر ٹکرا رہے ہیں ۔ مزید نادانی یہ کہ اس لا حاصل کام کا نام ہم نے جہاد رکھ لیا ہے ۔
