وہ صفحہ جو خالی رہا
مولانا عبد الماجد دریا بادی (1977-1892ء) مولانا محمد علی (1931-1878ء) کے بارے میں فرماتے ہیں’’:میرے دوست مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت بھی میرے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی ۔ بیتاب ہو کر تڑپ کر جوش وخروش سے للکارتے تھے:عبد الماجد اٹھو ، چل کر ملحد یورپ میں تبلیغ اسلام کریں‘‘ (صدق جدید، لکھنؤ، 2 جون 1977)۔ ڈاکٹر محمد اقبال (1938-1877ء)نے آخر عمر میں ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تھا ۔ جس کا نا م انھوں نے تجویز کیا تھا :
An Introduction to the Study of Quran
(مطالعہ قرآن کا ایک تعارف)۔ فرماتے تھے ’’ایک بار کتاب شروع کی توان شاء اللہ اسلام کے بارے میں یورپ کے تمام نظریات توڑ پھو ڑ کر رکھ دوں گا ‘‘۔ (شیرازہ،سری نگر، اقبال نمبر ، صفحہ 66)
اس طرح کے پرجوش ارادہ کی مثالیں ہمارے یہاں بہت سی ملیں گی ۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس پوری مدت میں کوئی ایک بھی قابل ذکر شخص نہیں ملتا جس نے مغرب کے انسانوں کے سامنے ان کی زبان میں اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہو۔
|
بطرس بن بولس بستانی مارونی (1883-1819ء) لبنان کا ایک عیسائی عالم تھا ۔ وہ عربی، سریانی ، لاطینی ، اطالوی ، انگریزی ، عبرانی ، یونانی زبانیں جانتا تھا ۔ فلسفہ ، علم الہٰیات، قانون ، تاریخ ، جغرافیہ اور حساب کی تعلیم حاصل کی ۔ اس نے امریکی عیسائیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر تورات کا ترجمہ کیا۔ المدرستہ الوطنیہ کے نام سے ایک اسکول قائم کیا۔ یہ مدرسہ اتنا مقبول ہوا کہ شام ، مصر ، آستانہ ، یونان اور عراق تک کے طلبہ اس میں تحصیل علم کے لیے آتے تھے ۔ اس نے محیط المحیط کے نام سے جدید طرز کا عربی لغت لکھا۔ دائرۃ المعارف کے نام سے ایک انسائیکلو پیڈیا لکھنی شروع کی ۔ چھ جلدیں شائع کر سکا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے لڑکے سلیم نے ساتویں اور آٹھویں جلدیں شائع کیں ۔ نویں جلد کو ترتیب دیتے ہوئے اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرے بیٹوں نے نویں جلد مکمل کی ۔ اس کے بعد بطرس بستانی کے بھائی سلیمان بستانی نے دسواں اور گیارھواں حصہ لکھا۔ ایک کام کو پشت در پشت آگے بڑھانے کا یہ طریقہ اس کی کامیابی کی سب سے زیادہ یقینی ضمانت ہے ۔
|
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
لَا تَعْتَمِدْ عَلَى خُلُقِ رَجُلٍ حَتَّىٰ تُجَرِّبَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ (التبر المسبوک، للغزالی، صفحہ 245)۔ یعنی،کسی آدمی کے حسن اخلاق پر بھروسہ مت کرو جب تک غصہ کے وقت اس کا تجربہ نہ کر لو ۔
