خارجی ختم ہو گئے
خارجیت زندہ ہے
ایک بار خارجی فرقہ کے چالیس آدمیوں نے ابن زیاد کے دو ہزار سپاہیوں کو مار بھگایا تھا۔ اس پر ایک خارجی شاعر نے فاتحانہ نظم لکھی ۔ چند اشعار یہ ہیں :
أ ألْفًا مُؤْمِن فِيمَا زَعَمْتُمْ وَيَقْتُلَكُمْ بِآسِكَ أَرْبَعُونَا
كَذَبْتُمْ لَيْسَ ذَاكَ كَمَا زَعَمْتُمْ وَلَكِنَّ الْخَوَارِجَ مُؤْمِنُونَا
هِيَ الْفِئَةُ الْقَلِيلَةُ قَدْ عَلِمْتُمْ عَلَى الْفِئَةِ الْكَثِيرَةِ يُنْصَرُونَا
کیا تم اپنے گمان کے مطابق دو ہزار مومن تھے اور تم کو مقام آسک پر صرف چالیس نے مار بھگا یا ، تم جھوٹے ہو اور تمھارا خیال غلط ہے ، درحقیقت خوارج مومن ہیں، تم نے جان لیا کہ یہی وہ تھوڑی جماعت ہے جو بڑی جماعت پر غالب آتی ہے ۔ (معجم البلدان، ياقوت الحموی، جلد 1، صفحہ 54)
خارجی شاعر کی اس دلیل کو آج کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا ۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ آج بھی ہمارے درمیان بے شمار لوگ ہیں جو اس قسم کی وقتی اور ظاہری کامیابیوں کو اپنی صداقت کا لازمی ثبوت سمجھتے ہیں — خارجی فرقہ دنیا سے ختم ہو گیا، مگر خارجیت آج بھی دنیامیں زندہ ہے ۔
