حوصلہ کا نام طاقت
نومبر کا مہینہ تھا اور رات کے تقریباً 12 بجے کا وقت ۔ طالب علم اپنے کمرہ میں سو رہا تھا۔ اس کی چارپائی کے پاس شلف میں مجلد کتابیں رکھی ہوئی تھیں ۔ طالب علم نے نیند کی حالت میں کروٹ لی اور اس کا ہاتھ شلف پر چلا گیا ۔ اچانک وہ ایک چیخ کے ساتھ اٹھ بیٹھا ۔ دیکھاتو ہاتھ کی انگلی میں دانت دھنسنے کا نشان تھا اور خون بہہ رہا تھا ۔ ’’مجھے سانپ نے کاٹ لیا ‘‘۔ وہ چلّایا اور کمرہ کے باہر نکل آیا ۔ اس کی آواز سن کر قریب کے کمروں کے لڑکے بھی جمع ہو گئے ۔ اس وقت طالب علم کا جسم پسینہ سے تر تھا اور وہ تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک شخص نے علاج کی غرض سے نیم کی پتیاں لا کر دیں تو وہ بے تکلف ان پتیوں کو کھا گیا اور اسے کڑوے پن کا احساس تک نہیں ہوا۔
وہاں ایک اور طالب علم تھا جس کا پورا خاندان طبیبوں کا تھا۔ اس نے آکر (مار گزیدہ) طالب علم کا ہاتھ دیکھا۔ اس کے زخم پر نظر ڈالی ’’دانت تو ضرور دھنسے ہیں۔مگر یہ دانت۔۔۔ ‘‘اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا ۔ اس کے بعد اس نے ایک ڈنڈا لیا اور کمرے میں روشنی کر کے اس کو اندر سے بند کرلیا ۔ جو لوگ کمرہ کے باہر کھڑے تھے، انھوں نے اندر سے ڈنڈا پیٹنے کی آواز سنی تو انھوں نے سمجھا کہ وہ سانپ کو مار رہا ہے ۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد جب وہ طالب علم کمرہ سے باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں سانپ کے بجائے ایک مرا ہوا چوہا تھا جس کو وہ دُم سے پکڑ کر لٹکائے ہوئے تھا ۔ ’’ دیکھو یہ تھی وہ چیز جس نے تمہیں کاٹا ہے ‘‘۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ مجھے تمہاری انگلی کا زخم دیکھتے ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سانپ کا کاٹا نہیں ہو سکتا ۔ چوہے کے دانت اور سانپ کے دانت میں فرق ہوتا ہے ۔ لیکن اگر میں یوں ہی کہتا تو تمہیں یقین نہ آتا ۔ اس لیے میں نے چاہا کہ پہلے چوہے کو پکڑ کر ماروں اور اس کے بعد تمہیں بتاؤں کہ حقیقت کیا ہے‘‘۔
یہ باتیں سن کر اور مر ا ہوا چوہا دیکھ کر یکا یک طالب علم اٹھ بیٹھا ۔ اب وہ بالکل اچھا تھا۔ ’’مجھے یاد آیا ‘‘ اس نے کہا ’’کل ہی میرے یہاں نئی نئی کتابیں جلد بن کر آئی ہیں۔ نئی جلدوں میں لئی کی بو پا کر اکثر چوہے آجاتے ہیں اور وہی قصہ یہاں بھی پیش آیا ‘‘۔
وہی طالب علم جس پر چند منٹ پہلے موت کی بد حواسی طاری تھی، اب بالکل ہشاش بشاش اپنے ساتھیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ حالانکہ اس کا کوئی علاج نہیں کیا گیا تھا ۔ اس کو صرف یہ یقین دلا دیا گیا تھاکہ اس کو جس چیز نے ڈسا ہے، وہ سانپ نہیں بلکہ چوہا ہے۔
یہی حال ہماری قوم کا ہے ۔ ہماری قوم اس وقت اپنے مسائل سے اس قدر پریشان ہے کہ زندگی کا حوصلہ تک اس سے رخصت ہو رہا ہے، مگر یہ پریشانی حقیقی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔ اگر قوم کے دل میں یہ بات اتاری جا سکے کہ تمہارا مسئلہ چوہے کا مسئلہ ہے، نہ کہ سانپ کا مسئلہ تو قوم کی حالت بالکل بدل جائے گی اور وہ حوصلہ اور اعتماد کی ان تمام نعمتوں کو دوبارہ پا لے گی جن کو وہ موجودہ حالت میں کھو چکی ہے۔
)محمد خالد اعظمی ،پیدائش 1928،اردو لیتھو پریس ، اسٹریٹ نمبر 4، شاہدرہ ، دہلی (
