اس میں سبق ہے
ہنری ہر اس (1956-1889) ایک اسپینی مسیحی تھے ۔ وہ 34سال کی عمر میں 18 نومبر 1922ء کو بمبئی کے ساحل پر اترے۔ ہندوستان کی زمین نے انہیں متاثر کیا اور انھوں نے طے کر لیا کہ وہ اسی ملک میں رہ کر کام کریں گے۔
فادر ہر اس (Fr Henry Heras) چند دن بعد سینٹ زیویرس کالج کے پرنسپل سے ملے۔ وہ ایک تاریخ داں تھے ۔ اس لیے پرنسپل نے پوچھا ’’آپ کون سی تاریخ پڑھانا پسند کریں گے‘‘ ۔ فادر ہر اس نے فی الفور جواب دیا’’:ہندستانی تاریخ ‘‘۔ پرنسپل کا اگلا سوال تھا، ہندستانی تاریخ کے بارے میں آپ کا مطالعہ کیا ہے‘‘۔ انھوں نے جواب دیا ’’کچھ نہیں‘‘۔ پھر آپ کیسے ہندستانی تاریخ پڑھائیں گے ۔ فادر ہر اس کا جواب تھا۔
I shall study it
’’میں ہندستانی تاریخ کوپڑھ کر اپنے آپ کو تیار کروں گا پھر اس کو پڑھاؤں گا‘‘۔
فادر ہر اس نے ہندستانی تاریخ کے مطالعہ میں اتنی زیادہ محنت کی کہ وہ سرجاد و ناتھ سرکار اور ڈاکٹر سر بندر ناتھ سین کے درجہ کے مورخ بن گئے ۔ آج بمبئی میں ان کے نام پر تاریخی مطالعہ کا ایک بہت بڑا ادارہ قائم ہے جس کا نام ہے— ہر اس انسٹی ٹیوٹ ۔
|
اس قسم کے واقعات بزرگی کا ثبوت نہیں سکھ دیو پر شاد بسمل الہ آبادی (1975-1893ء) اردو کے شاعر تھے۔ 23نومبر کو انھوں نے ایک غزل لکھی جس کا شعر تھا: بسمل آیا ہے اکیلا بسمل جائے گا اکیلا اگلے روز 23نومبر 1975کو ان کا انتقال ہو گیا ۔ |
