آپ بیتی
یہ 31 جنوری 1976ء کا واقعہ ہے، جب کہ راقم الحروف لیبیا جاتے ہوئے 36 گھنٹہ کے لیے روم (اٹلی ) میں ٹھہرا تھا ۔ روم کی یادوں میں سے ایک یاد وہ جرمن پادری ہے جس سے وہاں میری ملاقات ہوئی :
Dr. Hans Georg Asmussen Propst,
Beselerstrabe 28-2240 Heide,
Telefon (0481) 3220, W. Germany
ایک موقع پر میں نے دیکھا کہ موصوف عربی انجیل کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ اس سے میں نے سمجھا کہ وہ عربی زبان جانتے ہیں ۔ گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مجھے بائبل اور اس سے متعلقہ لٹریچر کے مطالعہ کا شوق ہے ۔ میرے پاس انگریزی میں چھپی ہوئی چیزیں موجود ہیں ۔ مگر میں بائبل کا مکمل عربی ترجمہ حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔
میرا مقصد صرف ناشر کا پتہ پوچھنا تھا، تاکہ وہاں سے عربی بائبل منگائی جا سکے ۔ مگر پادری موصوف نے ناشر کا پتہ بتانے کے بجائے خود میراپتہ دریافت کیا اور اپنی ڈائری میں میرا پتہ نوٹ کرتے ہوئے کہامیں آپ کو عربی بائبل بھجواؤں گا۔
اس واقعہ کو تقریباً ایک برس گزر چکا تھا اور میں نے سمجھ لیا تھا کہ پادری صاحب یا تو اپنا وعدہ بھول گئے یا انھوں نے کتاب روانہ کی اور وہ کسی وجہ سے مجھ تک نہیں پہنچی ۔ مگر فروری 1977 کی ایک تاریخ کو ڈاک سے ایک پیکٹ ملا۔ کھولا تو اس کے اندر پرانے اور نئے عہد نامہ پر مشتمل ’’ الکتاب المقدس ‘‘ کا ایک نیا نسخہ موجود تھا۔ فولڈنگ جلد کے ساتھ بائبل پیپر پر چھپا ہوا یہ خوبصورت نسخہ 1684 صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کو دیکھنے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ روانگی میں تاخیر کا امکانی سبب کیا تھا ۔ پرنٹ لائن کے مطابق بائبل کا یہ عربی نسخہ کو ریا میں ابھی 1976 میں چھپا ہے ۔ غالباً پادری موصوف کے پاس یا ان کے ادارہ میں عربی نسخے ختم ہو گئے تھے اور جب کو ریا سے چھپ کر وہ انھیں پہنچے ہیں تو حسب وعدہ انھوں نے فوراً اس کی روانگی کا انتظام کیا۔
پادری موصوف کے نام جب میں نے شکریہ کا خط روانہ کیا تو خیال آیا کہ کاش ہم بھی اسی طرح ’’ شکریہ کے خطوط ‘‘ وصول کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ۔ آج ساری دنیا میں بے شمار لوگ ہیں جو قرآن کو اپنی زبان میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔ مگر ہم ان کو قرآن کے ترجمے ان کی زبان میں اس طرح فراہم نہیں کر سکے جس طرح مسیحی حضرات دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی مقدس کتاب کو دوسروں تک پہنچا رہے ہیں ۔
قرآن کے مطابق ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بنی آدم کی طرف خدا کے آخری منذر (آ گاہ کرنے والے ) تھے ۔ آپ نے قرآن کے ذریعے انذار کی یہ ذمہ داری ادا فرمائی اور اپنے بعد کتاب اللہ کو محفوظ حالت میں چھوڑ گئے کہ وہ قیامت تک لوگوں کے لیے آگاہی کا ذریعہ بنتی رہے ۔
آپ کے بعد یہ قرآن کس طرح لوگوں تک پہنچے گا ۔ اس کا ذریعہ امت محمدی ہے ۔ امت محمدی کی پہلی اور لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی آوازکو تمام اقوام عالم تک پہنچائے ۔ مگر افسوس کہ آج ساری دنیا میں کوئی بھی ادارہ خاص اس مقصد کے لیے قائم نہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان اپنی اس ذمہ داری کے شعور تک سے غافل ہو چکے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو یہ کہا تھا کہ میں ’’بنی اسرائیل کی کھوئی بھیڑوں ‘‘کے پاس بھیجا گیا ہوں ، مگر آپ کے پیروؤں کے جوشِ تبلیغ نے مسیحیت کو ساری دنیا کے لیے قابل مطالعہ بنا دیا۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ میری بعثت سارے عالم کے لیے ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 335)۔ مگر آپ کے پیروؤں کے اندر یہ آگ نہیں بھڑکتی کہ آپ کے پیغام کو سارے عالم تک پہنچائیں — جرمن پادری کی طرف سے میں نے عربی بائبل کا نسخہ وصول کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہا ہو’’:دیکھو تم اسلام کا پیغام پھیلانے میں ناکام رہ گئے اور ہم ساری دنیا میں مسیحیت کا پیغام پہنچا رہے ہیں‘‘۔
)وحید الدین خاں ،پیدائش 1925، جمعیۃ بلڈنگ، قاسم جان اسٹریٹ، دہلی (
