جب دلدل میں پھنس جائیں

1909ء میں میرا تعلق ریاست باؤنی کدورہ (بندیل کھنڈ ) سے ہو گیا تھا ۔ نواب ریاض الحسن خاں کا عہدِ حکومت تھا۔ اس وقت میرے بہنوئی محمد سلیمان خاں مودھا ( ضلع ہمیر پور) کے تھانہ میں مامور تھے ۔ اور میں ہر پندرہویں دن اپنی بہن کو دیکھنے وہاں چلا جاتا تھا۔ فاصلہ صرف دس بارہ میل کا تھا جسے میں گھوڑے پر طے کرتا تھا۔

میں شام کو کدورہ سے چلا۔ میں جاگیر بیری کے قریب پہنچا جو کدورہ سے صرف تین میل دُور تھی۔ تو آفتاب غروب ہو چکا تھا اور رات کا دھند لکا شروع ہو گیا تھا۔ جاگیر بیری ایک اونچی پہاڑی پر دریا کے کنارے واقع ہے اور مودھا جانے کے لیے اس دریا کو عبور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس دریا کے دونوں کناروں پر دور دور تک ریت پھیلی ہوئی ہے۔ میں ریت کے اس حصے کو معمولاً پیدل طے کرتا تھا، تاکہ گھوڑے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ لیکن اس مرتبہ دیر ہو جانے کی وجہ سے میں گھوڑے پر سوار رہا اور اس کو تیز تیز چلانے لگا۔

اس دریا کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے کناروں پر کہیں کہیں چور بالو بھی پائی جاتی ہے۔ چور بالو سے مراد وہ ریتیلا حصہ ہے ، جو بظاہر صاف اور مسطح نظر آتا ہے۔ لیکن پانی کی سطح سے قریب تر ہو نے کی وجہ سے اس کے نیچے دلدل ہو جاتی ہے اور اس پر پاؤں رکھتے ہی آدمی ہو یا جانور اندر دھنسنے لگتا ہے ۔ اس مرتبہ چونکہ مجھے جلدی تھی، اس لیے معمولی راستہ سے ہٹ کر میں نے مختصر راستہ اختیار کرنا چاہا ۔ اور گھوڑے کو اسی طرف ڈال دیا ۔ تھوڑی دُور چل کر مجھے ایک رتیلی تنگنا رے ملی ۔ اور میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی تاکہ وہ اسے پھاند کر گزر جائے ۔ میں تاریکی میں اس کی چوڑائی کا صحیح اندازہ نہ کر سکا۔ زیادہ سے زیادہ میں اسے تین گز کا سمجھتا تھا ۔ حالانکہ وہ چھ گز سے کم نہ تھا۔ میرے ایڑ لگانے پر گھوڑے نے جست تو کی ، لیکن وہ اس فاصلہ کو عبور نہ کر سکا۔ اور اس کے اگلے پاؤں ریتیلے حصے کے اندر ہی رہے۔ اس کے بعد دفعتاً گھوڑا اندر دھنسنے لگا تو مجھے پتہ چلا کہ میں چور بالو میں پھنس گیا ہوں۔ چور بالو سے جَان بچانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ، وہ یہ کہ اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مارے جائیں ( اس طرح آدمی اور اندر دھنستا چلا جاتا ہے)، بلکہ اپنے آپ کو بالو پر چت یا پٹ ڈال دیا جائے۔ گھوڑا سینہ تک دھنس چکا تھا اور میں بھی اس کے ساتھ گھٹنوں گھٹنوں بالو کے اندر غرق تھا۔ غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ گھوڑے کو بچانا تو ممکن نہیں، اس لیے اس کے ساتھ اپنی جَان کیوں گنوائی جائے ۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنے دونوں پاؤں رکاب سے الگ کر کے اوپر نکالے اور فوراً چور بالو پر بے حس وحرکت لیٹ گیا ۔ اتفاق کی بات کہ اس وقت بیری کے دور اجپوت گھر لوٹتے وقت میرے پاس سے گزرے ۔ اور میں نے انہیں آواز دی۔ وہ دونوں دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنی پگڑی کھول کر اس کا سر ا میری طرف پھینکا کہ اسے مضبوط پکڑ لوں ۔ اور جب میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا تو انہوں نے مجھے آہستہ آہستہ گھسیٹنا شروع کیا۔ اور میں اس چور بالو سے نکل گیا۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ گھوڑے کو کیوں کر نکالا جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ پگڑی کا ایک سِرا پھندا بنا کر اس کی گردن میں ڈالا جائے اور اس کو بھی گھسیٹا جائے۔ میں لگام کو جھٹکا دینے لگا ۔ مگر گھوڑا تھک کر اس قدر بے جان ہو گیا تھاکہ جھٹکے سے بھی اس کے جسم میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی اور آخر کار وہ دھنستے دھنستے غائب ہو گیا۔

)نیاز فتحپوری(

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom