لکھنے کی دو قسمیں
ایک بہت بڑے شاعر کو میں نے ایک بار دیکھا ۔ وہ ایک غزل لکھ رہے تھے ۔ غزل کا آخری لفظ تھا :
’’انساں بنا دیا ‘‘ ۔ میں نے دیکھا کہ کاغذ کے کنارے انھوں نے بہت سے ہم وزن الفاظ لکھ رکھے ہیں ۔ مثلا ً گلستاں ، چمنستاں ، زنداں ، خموشاں ، ویراں ، بہاراں وغیرہ۔ ان الفاظ کو ذہن میں رکھ کر مضامین سوچتے ہیں، اورجب کوئی مضمون اس ردیف وقافیہ میں ڈھل جاتا ہے، تو اس کے بعد اسے کاغذ پر لکھ لیتے ہیں ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دو گھنٹے کے بعد وہ اس پوزیشن میں تھے کہ مشاعرہ میں یہ کہہ سکیں کہ’’:تازہ غزل حاضر ہے ‘‘۔
میں نے بزرگ شاعر سے کہا’’:آپ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیت دی ہے ۔ آپ اردو ، عربی ، فارسی اور انگریزی زبانوں سے بخوبی واقف ہیں ۔ آپ کو تو نثر کی چیزیں لکھنی چاہئیں ۔ اس قسم کی شاعری آپ کے شایانِ شان نہیں ‘‘۔ انھوں نے جواب دیا’’: تم سچ کہتے ہو ۔ مگر نثر میں لکھنے کے لیے مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت ہے ، اور وہ مجھ سے ہوتی نہیں۔ اگر مطالعہ اور تحقیق کے بغیر نثر لکھوں تو ایک پارۂ ادب ضرور تیار ہو جائے گا ۔ مگر ایسی کوئی کتاب نہیں بن سکتی جس کی آج کی دنیا میں قدرو قیمت ہو ‘‘۔
یہ شعر کی مثال تھی ۔ اب دیکھیے کہ ایک ’’کتاب ‘‘ کس طرح لکھی جاتی ہے ۔
ایک امریکی لاری کولنس (Larry Collins, 1929-2005)اور فرانسیسی ڈامینیک لیپری (Dominique Lapierre, 1931-2022)نے مل کر ہندوستان کی آزادی پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ جس کا نام ہے — ’’نصف شب کی آزادی: ‘‘
Freedom of Midnight, 1975
اس کتاب کی تیاری میں ان کے چار سال سے زیادہ لگے ۔ انھوں نے لندن کے اخبار ٹائمس میں اشتہار دیا کہ جن لوگوں نے 1940-47کے درمیان ہندستان میں کام کیا ہے ، وہ اپنے پتے سے ہم کو مطلع کریں ۔ جواب میں ان کو دو ہزار خطوط ملے ۔ انھوں نے ان تمام لوگوں کے پاس اپنی ٹیم بھیج کر انٹرویو لیے اور رپورٹ تیار کی ۔ انھوں نے ہندستان ، پاکستان اور برطانیہ کے تین سفر کیے اور مختلف جاننے والوں سے مل کر بارہ ہزار انٹرویو تیار کیے ۔ ان کی تحقیق اور دستاویزات اور انٹرویو کے کاغذات کا وزن ایک ٹن سے زیادہ تھا ۔ مگر ان کے فرانس کے دفتر میں ان کو اس طرح ترتیب سے رکھا گیا تھا کہ ان کی خاتون سکریٹری ’’نسی‘‘ مخصوص کاغذ کو صرف ایک منٹ میں نکال سکتی تھی ۔
اب انھوں نے کتاب لکھنا شروع کی ۔ نصف حصہ کالنس نے انگریزی میں لکھا اور بقیہ نصف لیپری نے فرانسیسی میں ۔ ہر ایک دوسرے کے لکھے ہوئے کو دیکھتا،اور بےرحمانہ تنقید کرتا۔ جب دونوں مطمئن ہو جاتے تو آخری مسودہ کو ایک مقامی کسان کی بیوی کو پڑھنے کے لیے دیتے ۔ اگر خاتون یہ کہتی کہ میں ٹھیک سے سمجھ نہ سکی تو وہ فرض کر لیتے کہ ابھی کچھ غلطی ہے اور اس حصہ کو دوبارہ لکھتے ۔ آخری ایک سال انھوں نے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور اس طرح اپنی کتاب تیار کی ۔
مصنف نے یہ تفصیل بتاتے ہوئے انٹرویور سے کہا:
We lived like hermits, and we produced... 'Fredom at Midnight'
ہم نے رہبانوں کی طرح زندگی بسر کی اور پھر ہم نے اپنی کتا ب تیار کر لی ۔
