پہلے کچھ سہنا پڑتا ہے
بعض قوموں میں گودنا گدوانے کارواج ہے۔ پہچان کے لیے یا تبرک کے لیے جسم کے کسی حصہ پر خاص شکلیں یا نام بنوا لیتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مطلوبہ شکل کے مطابق پہلے سوئی سے چھید کیا جاتا ہے اور پھر ان چھیدوں میں مسالہ بھر دیا جاتا ہے ۔ اس طرح کالے رنگ کا نقشہ بن جاتا ہے جو عمر بھر رہتا ہے۔
قصہ ہے کہ ایک آدمی گودنا گود نے والے کے پاس گیا اور کہا کہ میرے ہاتھ پر شیر کی شکل بنا دو۔ گود نے والے نے اپنی سوئی اٹھائی اور نشان لگانا شروع کیا۔ سوئی کی چبھن آدمی کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئی ۔ اس نے کہا ’’کیا بنا رہے ہو‘‘۔ گود نے والے نے کہا ’’دم‘‘۔ آدمی نے کہا ’’کیا دم کے بغیر شیر نہیں ہوتا ‘‘۔ گود نے والے نے کہا اچھا ۔ اور دوسری چیز بنانے لگا ۔ اب پھر سوئی کی نوک چبھنے لگی ۔ آدمی نے کہا اب کیا بنا رہے ہو۔ اس نے کہا ’’پاؤں ‘‘ ۔ آدمی نے کہا ’’ کیا پاؤں ضرور ی ہے‘‘۔ گودنے والے نے کہا ٹھیک ہے ۔ اس کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ اب وہ دوسری چیز گودنے لگا۔ آدمی کے اندر پھر بے چینی پیدا ہوئی۔ اس نے کہا ’’اب کیا بنا رہے ہو ‘‘ اس نے کہا ’’جبڑا ‘‘ ۔ آدمی نے کہا کیا جبڑا ضروری ہے ۔ تم بغیر جبڑے ہی کے شیر بنا دو ‘‘ ۔ غرض اس طرح وہ ایک ایک چیز کو منع کرتا گیا اور بالآخر یہ ہوا کہ شیر کی تصویر نہ بن سکی، صرف چند متفرق نشانات اس کے ہاتھ پر بن کر رہ گئے — ہر مقصد کے لیے ابتداء ً کچھ سہنا پڑتا ہے ۔ اگر آدمی سہنے کے لیے تیار نہ ہو تو وہ کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
عبد الحمید چھوٹا نی (پیدائش 1923ء) پاکستان کے ایک ممتا ز سائنس داں ہیں ۔ وہ بمبئی آئے ۔ اس موقع پر ایک اخباری رپورٹر نے ان سے انٹرویو لیتے ہوئے سوال کیا’’:انجینئرنگ کے میدان میں پاکستان اتنا پیچھے کیوں ہے‘‘۔ مسٹر چھوٹانی نے جواب دیا’’:یہ صحیح ہے کہ ہم انجینئرنگ میں ابھی تک قابل قدر ترقی حاصل نہ کر سکے ۔ اس کی خاص وجہ ہے ہمارے یہاں بنیاد (base) کی کمزوری ۔ اکاد کا انڈسٹری سے آخر کتنی ترقی کی امید کی جاسکتی ہے۔ (اخبار عالم، 14 اپریل 1979) یعنی تعلیم گاہیں اسی وقت انجینئر زیادہ پیدا کریں گی، جب کہ ان کی کھپت کے لیے ملک میں زیادہ صنعتیں بھی موجود ہوں ۔ صنعتوں کی کمی ہو تو کوئی ملک زیادہ انجینئر پیدا نہیں کر سکتا۔
اسی طرح ہر کام کی ایک بنیاد ہوتی ہے ۔ بنیاد کے بغیر کوئی اقدام کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ مثلاً جمہوری دور میں سیاست کی بنیاد عوامی رائے ہے ۔ اگر آپ کو عوامی ووٹروں کی اکثریت حاصل نہ ہو تو گویا آپ کے پاس وہ بنیاد ہی نہیں ہے، جس پر الیکشن لڑے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر آپ الیکشن میں کودیں تو لازماً آپ ہاریں گے، اور اگر آپ کے اندر اعتراف کا مادہ نہیں ہے تو مزید یہ حماقت کریں گے کہ اپنی ہار کو چھپانے کے لیے یہ شور کریں گے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اگر موقع ملے گا تو فوج سے ساز باز کر کے مقبول عوام لیڈروں کو قتل کرائیں گے تاکہ آپ عوامی بنیاد نہ ہونے کے باوجود حکومت کی گدی پر پہنچ سکیں۔ اگرچہ اس قسم کی کوشش کبھی کسی کے لیے نتیجہ خیز نہیں ہوئی ہے ۔ مستقبل کے اعتبار سے ، یہ ملک کی بربادی ہے اور بالآخر خود اپنے آپ کی بھی ۔
