حادثات ہیرو بنا دیتے ہیں
31اگست 1976ء کا واقعہ ہے ۔ دہلی کے روز ری اسکول (نزدیک ریڈیو کالونی) کے میدان میں لڑکے جمع تھے ۔ اتنے میں ایک کالا سانپ نکلا اور ایک چھ سالہ بچے کو لپیٹ لیا۔ بچہ چیخنے لگا۔ اس کے ساتھی بھی چیختے ہوئے بھاگے۔ چیخ پکارکی آواز اسٹاف روم تک پہنچی اور اسکول کی استانیاں بچہ کی طرف دوڑیں۔
مگر اس کا خوفناک حال دیکھ کر سب سہم گئیں۔ اتنے میں ایک استانی خاموشی کے ساتھ آگے بڑھی۔ اس کے ہاتھ میں صرف ایک اخبار تھا۔ اس نے اخبار کو سانپ کے منھ پر رکھا اور پوری طاقت سے اس کو پکڑ کر بچے کے پاؤں سے الگ کر دیا۔ لڑکا فوراً قریب کے ہندو راؤ اسپتال میں لے جایا گیا، جہاں وہ چند دن کے علاج سے اچھا ہوگیا۔ سانپ کو اسپتال کی لیبورٹری میں پہنچا دیا گیا، جہاں وہ زندہ حالت میں موجودہے ۔
استانی کا نام مسز جان ہے ۔ اور بچہ کا نام راجن کپور۔
مسز جان نے اس سے پہلے کبھی سانپ نہیں دیکھا تھا ۔ انھوں نے اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا’’:مجھے یقین نہیں آتا کہ میں نے اس موذی سانپ کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیا تھا۔ اب تو مجھے اس کو سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے ‘‘۔
یہ دراصل ’’حادثہ ‘‘ تھا جس نے مسز جان کو اس حیرت ناک بہادری کے لیے آمادہ کیا ۔ حادثات آدمی کو ہیرو بنا دیتے ہیں ۔
مولانا محمد علی (1931-1878) جب بیتول جیل میں نظر بند تھے ، ان کی اہلیہ جیل خانہ میں ان سے ملاقات کے لیے گئیں ۔ انھوں نے اپنے شوہر مولانا محمد علی سے کہا :
’’تم ہماری فکر نہ کرنا۔ خدا ہی پہلے بھی رازق تھا اور اب بھی وہی رازق ہے۔ تم صرف ایک واسطہ تھے۔ اور خدا بلا واسطہ بھی دے سکتا ہے اور دوسرا واسطہ بھی پیداکر سکتا ہے ‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے کہا ’’ رہا تمھارا کام ، سو اگر اجازت ہو تو میں اسے کرتی ہوں ‘‘۔ (مضامین محمد علی ، جلد اول ، صفحہ 84-83)
چنانچہ انھوں نے کام شروع کیا اور دو سال کے عرصے میں 45 لاکھ روپے کا چندہ خلافت تحریک کے لیے جمع کر لیا ۔
یہ زیر نظر تحریر لکھے جانے سے 45 سال پہلے کا واقعہ ہے، جب کہ ’’لاکھ‘‘ کا مطلب اس سے بہت زیادہ تھا، جو آج سمجھا جاتا ہے ۔
