ایک کوکیچڑ دوسرے کو ستارے
ڈیل کارنیگی (1955-1888)کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے :
How to stop worrying and Start Living, 1948
اس کتاب میں اس نے جنگ عظیم ثانی کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے ۔
ٹامسن ایک امریکی فوجی تھا ۔ اس کی ڈیوٹی کیلی فورنیا کے صحرائے موجاوی (Mojave)میں تھی ۔ اس کی بیوی (Thelma Thompson, 1907-1977) اپنے شوہر سے قریب رہنے کے لیے وہاں گئی، اور قریب کی ایک بستی میں مکان لے کر رہنے لگی ۔ تھوڑے دنوں رہنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ یہ جگہ اس کی پسند کے بالکل خلاف ہے ۔ گرمی ، ریت اور آندھی ہر وقت وہاں اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود رہتے تھے ۔ اس کے ساتھ تنہائی ، کیونکہ اس کے شوہر کا بیشتر وقت فوجی گشت میں گزرتا تھا ۔ اس کے واحد ساتھی اس کے دیہاتی پڑوسی تھے ۔ مگر وہ لوگ انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے ، اس لیے وہ ان سے بھی مانوس نہ ہو سکی ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑدے اور اپنے گھر واپس چلی جائے۔ اس نے اپنے والدین کو ایک مایوسانہ خط لکھا، اور ان کو بتایا کہ وہ جلد ہی ان کے پاس لوٹ آنا چاہتی ہے ۔اس کے باپ کا جواب آیا ۔ مگر وہ بہت مختصر تھا۔ باپ نے اپنے خط میں صرف دو سطریں لکھی تھیں :
Two men looked out from prison bars.
One saw the mud, the other saw the stars.
دو آدمیوں نے قید خانہ کے جنگلے سے باہر نظر ڈالی ۔ ایک کو کیچڑ دکھائی دیا، دوسرے کو ستارے ۔
ان دو سطروں نے اس کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسی صحرائی گاؤں میں رہے گی، اور یہاں اپنے لیے بہتر زندگی بنائے گی ۔ اس نے محسوس کیا کہ جہاں کیچڑ ہے، وہیں اس کے اوپر ستارے بھی چمک رہے ہیں ۔ اس نے ’’کیچڑ‘‘ کے بجائے ’’ ستاروں ‘‘ کو دیکھنے کی کوشش شروع کر دی ۔ اس نے مقامی لوگوں میں اپنے دوست بنائے ۔ ان کا کلچر اور زبان سیکھی ۔ اس نے صحرائی زندگی کی رنگا رنگیوں کو سمجھا۔ اس نے صحرا میں ڈوبتے اور نکلتے ہوئے سورج کے حسن کا مشاہدہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس کو اس علاقہ سے اتنی دلچسپی ہو گئی کہ اس کا شوہر جب اپنی فوجی ملازمت سے ریٹائر ہو ا تو دونوں نے طے کیا کہ وہ اپنی آئندہ زندگی اسی مقام پر گزاریں گے، حتیٰ کہ اس نئے تجربہ نے مسز ٹامس کو ایک مصنف بنا دیا۔ اس نے اپنے تجربات کے متعلق ایک کتاب (Bright Ramparts, 1943)کے نام سے لکھی جو بے حد مقبول ہوئی اور اس کے کثیر ایڈیشن شائع ہوئے ۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف نے لکھا ہے :
The most important thing about suffering is not what happens to us but how we react to it
زیادہ اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہمیں کن مشکلوں سے سابقہ پیش آرہا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں کس قسم کا رد عمل ظاہر کرتے ہیں ۔
