چند واقعات
1۔ اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نہایت خوبصورت اور وجیہ شخص تھا۔ ایک روز اس نے سبز جوڑا پہنا اور سبز عمامہ باندھا۔ پھر اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھ کر بولا میں ایک جوان با دشاہ ہوں (أَنَا الْمَلِكُ الْفَتَى)۔ اتنے میں اس کی ایک کنیز اس کی طرف دیکھنے لگی۔ سلیمان نے پوچھا تو کیا دیکھ رہی ہے ۔ اس نے جواب میں یہ اشعار پڑھے :
أَ نْتَ نِعْمَ الْمَتَاعُ لَوْ كُنْتَ تَبْقَى
غَيْرَ أَنْ لَا بَقَاءَ لِلْإِنْسَانِ
لَيْسَ فِيمَا عَلِمْتُهُ فِيكَ عَيْبٌ
كَانَ فِي النَّاسِ غَيْرَ أَ نَّكَ فَانِ
ترجمہ:تو بہترین سرمایہ ہے، کاش تجھے بقا نصیب ہوتی، مگر انسان کے لیے بقا نہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے، تجھ میں کوئی عیب نہیں جو لوگوں میں پایا جاتا ہو، بجز اس کے کہ تو فانی ہے۔(الکامل للتاریخ، جلد 4، صفحہ 94)
اس واقعہ پر ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ سلیمان کا انتقال ہو گیا۔ یہ واقعہ 10صفر 99ھ کا ہے۔ اس نے تقریباً پونے تین سال حکومت کی اور 45 سال کی عمر پائی ۔
2۔ مصر کے فرعون (Tutankhamen) کا مقبرہ 1923ء میں کھولا گیا ۔ مصری علوم کے ماہر لارڈ کار نارون (Carnarvon, 1866-1923) مقبرہ کے اندر داخل ہوئے تو فوراً بیمار پڑ گئے اور چند ہفتے کے اندر مر گئے۔ اس کے کچھ دنوں بعد آرتھر میس (Arthur Mace, 1874-1928) اور جارج بینڈائٹ(George Benedite, 1857-1926 ) مقبرہ میں گئے ، وہ دونوں بھی چند دنوں بعد اچانک مرگئے۔ یہ واقعہ جب عوام میں مشہور ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ لوگ فرعون کی لعنت سے ہلاک ہوئے۔ (بعد کو ڈاکٹر جارج ڈین نے مقبرہ میں تین مہینے تک کام کیا۔ انھوں نے تحقیق کر کے بتایا کہ ہزاروں برس سے ابابیلیں اس مقبرہ کو اپنا گھونسلا بنائے ہوئے تھیں ۔ ان کی بیٹ کی بدبو سے مقبرہ بھر گیا تھا۔ مذکورہ افراد اس سخت بدبو میں سانس لینے کی وجہ سے ہلاک ہوئے)۔
3۔ کرنل اسٹافن برگ(Stauffenberg, 1907-1944)نے ہٹلر کے خلاف نہایت کامیاب منصوبہ بنایا تھا۔ جولائی 1944 میں اس نے ایک بریف کیس میں ایک ٹائم بم رکھ کر ہٹلر کے کیمپ ہیڈ کوارٹر میں پہنچا دیا۔ اگر بر وقت یہ بم پھٹ گیا ہوتا تو برلن میں مقیم تھوڑے سے جرمن فوجی افسر ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر لیتے، اور نازی لیڈر کے خاتمہ کا اعلان کرکے جرمنی کی حکومت پر قبضہ کر لیتے۔ مگر ٹائم بم اس وقت پھٹا جب کہ ہٹلر کیمپ سے باہر آ چکا تھا۔
4۔ 1947 میں کشمیر کے وزیر اعظم مسٹر مہر چند مہاجن (1889-1967ء)تھے ۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’لو کنگ بیک‘‘ (Looking Back) میں الحاق کی کہانی بتاتے ہوئے لکھا ہے:پاکستان کا ایک منصوبہ یہ تھا کہ مہاراجہ کشمیر کو اور مجھ کو اغواکر لیا جائے اور سنگین کی نوک پر ہم سے الحاق کے مسودہ پر جبری دستخط کرا لیے جائیں ۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہم کوبھیم بر کے ڈاک بنگلہ میں اس وقت گرفتار کر لیا جائے جب کہ ہم وہاں لنچ کھا رہے ہوں۔ بھیم بر بالکل پاکستان کی سرحد پر ہے اور کشمیر کو جانے والی مشہور مغل روڈ پر واقع ہے۔ اس روڈ کے ایک طرف کشمیر ہے اور دوسری طرف پاکستان ۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ہم 20 اکتوبر 1947کو کٹھوعہ کا دورہ کریں گے اور 21کو بھیم بر اور میر پور کی طرف جائیںگے۔ پاکستان کے لوگوں نے ایک ہتھیار بند موٹر تیار کر رکھی تھی، جو 21کو ہماری گرفتاری کے لیے بھیم بر پہنچنے والی تھی۔ مگر واقعات کی ایک غیر متوقع کروٹ نے ہم کو بچالیا۔ 20 اکتوبر کی صبح کو جب ہم کٹھوعہ کے لیے روانہ ہوئے اور ایک چو رستہ پر پہنچے، جہاں سے ایک سٹرک کٹھوعہ کی طرف اور دوسری اکھنو راور بھیم بر کی طرف جاتی تھی ، مہاراجہ نے اچانک جیپ ڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ کٹھوعہ کے بجائے گاڑی کو بھیم بر کی طرف موڑ دے۔ میں نے عرض کیا، کٹھوعہ میں سرکاری افسران اور عوام ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے اور بھیم بر کے لیے ہم نے کوئی پروگرام نہیں بھیجا ہے اور اس وقت وہاں کوئی انتظام نہیں ہوگا۔ مہاراجہ نے میری گزارش کو نظرانداز کردیا اور کہا کہ وہ کسی پروگرام کے پابند نہیں ہیں۔ اس لیے ہم اکھنور اور بھیم بر کی طرف روانہ ہوئے اور میرپور نہ پہنچ سکے۔ ہم نے بھیم بر کے ڈاک بنگلہ میں دن کا کھانا کھایا اور 10 بجے رات کو جموں پہنچے۔ اس کے بعد جیسا کہ طے تھا، 21 اکتوبر کو بھیم بر کا ڈاک بنگلہ گھیر لیاگیا۔ ہم اس سازش کا شکار ہو جاتے، اگر ہم نے اصل پروگرام کے مطابق سفر کیا ہوتا۔ مہاراجہ کی پیش اندیشگی نے ہم کو پاکستان کے قبضہ میں جانے سے بچالیا‘‘ ۔
Looking Back, pp. 272-273
۵۔ چین کے سابق وزیر اعظم مسٹر چو این لائی (1972-1898ء) نے اپنی موت سے صرف چند دن پہلے شمالی ویت نام کے ایک کمیونسٹ لیڈر سے اسپتال میں ملاقات کی تھی۔ دونوں کمیونزم کے بعض فکری پہلوؤں پر بحث کرتے رہے۔ جب ویت نامی لیڈر جانے لگا تو چاؤ نے ہنس کر کہا’’:اب میں اس مسئلہ کو خود کارل مارکس سے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ کیونکہ چند ہی دن میں میں اس کے پاس جانے والا ہوں‘‘۔ اور فی الواقع اس کے چند دن بعد 6 جنوری کی شام کو ان کا انتقال ہو گیا۔
۶ ۔ چنگیز خاں کے پوتے قبلائی خان (1294-1216ء) نے 1281میں جاپان پر حملہ کیا۔ اس نے ایک عظیم جنگی بیڑہ تیار کر کے ان جزائر کو فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس وقت جاپان ایشیا کے ایک کمزور ملک کی حیثیت رکھتا تھا۔ قبلائی خان جیسے فاتح کی فوج سے مقابلہ کرنے کی طاقت ان میں بالکل نہیں تھی ، تاہم ان کو اپنے خدا وند (آفتاب) پر بھروسہ تھا جس کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں۔ جیسے ہی خطرہ کا احساس ہوا، ان کا مذہبی پیشوا اٹھا اور لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ سب لوگ دعائیں مانگو۔ انھوں نے رات دن اپنے دشمن کے مقابلہ میں اپنے خدا کو پکارنا شروع کیا۔ ابھی قبلائی خان کی فوج جاپان کے ساحل پر اتری بھی نہ تھی کہ زبردست سمندری طوفان آیا اور تمام تحری بیڑہ سمندر کی ہولناک لہروں میں غرق ہو گیا۔
