ادبی استدلال کافی نہیں

ملک خدا بخش مشہور مسلم قانون داں گزرے ہیں ۔ وہ انگریزی ہندستان میں ایڈوکیٹ جنرل تھے اور 1932ء سے 1937ء تک لیجسلیٹو کونسل میں حزب مخالف کے لیڈر رہے ۔ انھوں نے برطانوی صحافی بیورنی نکلس سے ایک ملاقات کے دوران بڑی شدت کے ساتھ کہا تھا  :

’’ہندو اردو زبان کو ہٹا کر ہندستانی کو اس کی جگہ بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن اردو بڑی سخت جان ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ لفظ ’’اردو ‘‘ کیا معنی رکھتا ہے ؟ اس لفظ کے معنی ہیں لشکر ۔ گویا یہ ایک لشکر ہے جس پر ہندستانی زبان کبھی فتح نہیں پاسکتی‘‘۔ (ورڈکٹ آن انڈیا، 1944)

اس قسم کا استدلال صرف ادبی استدلال ہوتا ہے، اور ضروری نہیں کہ حقیقت واقعہ بھی ادبی استدلال کے ساتھ موافقت کرے ۔

شعرو شاعری اور خطابت کے رواج نے ہماری ذہنی زندگی میں جو خرابیاں پیدا کیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خالص حقیقت پسندانہ اور سائنٹفک انداز فکر ہمارے یہاں پیدا نہ ہو سکا۔ کتنے عالی دماغ لوگ اس قسم کے دلائل کے بھروسہ پر صدیوں جیتے رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب ان کی خیالی دلیل خارجی حقیقت سے ٹکرائی تو معلوم ہوا کہ وہاں سرے سے کوئی دلیل ہی موجود نہ تھی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom