زبان والے بے زبان ہو جائیں گے

نئی دہلی کی بعض سڑکوں پر سواریوں کو کنٹرول کرنے کا نیا نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سڑک کے اوپر ٹیلی ویژن کیمرے نصب ہیں جو آنے جانے والی سواریوں کا مسلسل فوٹو لیتے رہتے ہیں۔ یہ فوٹو مشینی انتظام کے ذریعہ ایک علیحدہ کمرہ (کنٹرول روم) میں پہنچتے ہیں جہاں ایک سرکاری انسپکٹر لوگوں کی نظروں سے دور بیٹھا ہوا ان کی تمام حرکات کو اسکرین پر دیکھتا رہتا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے آپ کسی منظر سے دور رہتے ہوئے اس کو اپنے گھر کے ٹیلی ویژن سیٹ پر دیکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ سڑک پر لائوڈ اسپیکر لگے ہوئے ہیں۔ بند کمرہ میں بیٹھا ہوا آدمی جب کسی مسافر کو غلط چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو فوراً وہ لائوڈ اسپیکر پر اس کو متنبہ کرتا ہے۔ مسافر بولنے والے کی آواز سنتا ہے ، اگرچہ وہ بولنے والے کو نہیں دیکھتا۔

ایک روز ایسا ہوا کہ ایک ڈرائیور جو تین پہیہ والا اسکوٹر رکشہ چلا رہا تھا، اس نے اپنا اسکوٹر ایک ایسے مقام پر کھڑا کیا جہاں گاڑی کھڑی کرنا منع تھا۔ انسپکٹر نے اپنے کمرے کی اسکرین پر اس کو دیکھا اور فوراً لائوڈ اسپیکر پر بولتے ہوئے چیتائونی دی کہ تم نے اپنا اسکوٹر ممنوع مقام پرکھڑا کر دیا ہے ، فوراً وہاں سے ہٹ جائو۔ اسکوٹر ڈرائیور کے کان تک آواز پہنچی مگر اس نے اس کی پروا نہ کی۔ کیوں کہ آس پاس اس کو پولیس کی وردی پہنے ہوئے کوئی شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مذکورہ مشینی نظام چوں کہ ابھی حال میں نصب کیا گیا ہے اس لیے ڈرائیور کو اس کی خبر نہ تھی۔ اعلان کے الفاظ فضا میں گونج رہے تھے مگر اس نے سنجیدگی کے ساتھ اس کو سمجھنے کی بھی کوشش نہ کی۔ دوسری طرف انسپکٹر اس کی حرکات کو برابر اپنی اسکرین پر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ڈرائیور اس کی ہدایت کو نظراندازکر رہا ہے تو اس نے اپنے پاس سے ایک سپاہی کو بھیجا کہ ڈرائیور کو پکڑو اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کا چالان کرو۔ سپاہی جب ڈرائیور کے پاس پہنچا تو اس نے اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنا اسکوٹر یہاں کھڑا نہیں کیا۔ میں تو سواری اتارنے کے لیے صرف ایک منٹ رکا تھا اور اب اپنے راستہ پر آگے جا رہا ہوں۔

He was left speechless

New Delhi, February 19-Caught by the camera!

A three-wheeler scooter-rickshaw driver was left without an excuse when a video tape-recording of his movements was shown to him a few days ago.

The sub-inspector controlling traffic with the newly installed. closed circuit television cameras spotted on his monitor a TSR driver parking his vehicle at the ''No Parking'' place at one of the crossings.

He made announcements over the public-address system, but the driver would not listen. The SI then sent a policeman to challan the driver. The driver, protesting that he had parked his vehicle just for a minute to drop a passenger, came over to the Central Control room to meet the SI.

The SI after listening to his arguments, showed him the video tape-recording of what all he had been doing since the time he parked his vehicle. When the driver saw himself loitering about, talking with his friends, all picturised clearly on the screen, he was left speechless.

The Hindustan Times, February 20,1980

 اس کے بعد سپاہی اس کو انسپکٹر کے پاس کنٹرول روم میں لے گیا۔ انسپکٹر کے سامنے بھی ڈرائیورنے وہی بات کہی جو اس نے سپاہی سے کہی تھی۔ انسپکٹر نے جب دیکھا کہ ڈرائیور اپنے جرم کا اقرار نہیں کر رہا ہے تو اس نے اپنی مشین کو پیچھے کی طرف گھمایا اور ڈرائیور کی فلم اس کے سامنے چلا دی۔ اچانک اسکرین پر ڈرائیور اور اس کا اسکوٹر دکھائی دینے لگا۔ اب ڈرائیور مشین کے سامنے کھڑا ہوا اپنی تمام سابقہ حرکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اپنا اسکوٹر چلاتے ہوئے آیا۔ پھر اس کو نظر آیا کہ وہ اپنا اسکوٹر اس مقام پر کھڑا کر رہا ہے جہاں گاڑی کھڑا کرنا منع تھا۔ اس کے بعد وہ اسکوٹر سے باہر آیا اور دیر تک بے فکری کے ساتھ اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ وہ اطمینان کے ساتھ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا اور سگریٹ پی رہا تھا۔ یہاں تک کہ انسپکٹر کا بھیجا ہوا سپاہی اس کے پاس آ گیا۔ اب اس نے جلدی سے اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کر دیا اور ظاہر کیا کہ وہ تو راہ چلتے ہوئے ایک منٹ کے واسطے یہاں رکا تھا اور اب آگے جا رہا ہے۔ یہ ساری کہانی متحرک تصویروں کی صورت میں ڈرائیور نے ا پنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ اس سے پہلے ڈرائیور نے انسپکٹر کی باتوں کا انکار کر دیا تھا۔ اس کے پاس اپنی برأت ظاہر کرنے کے لیے بے شمار الفاظ تھے۔ مگر اسکرین نے جب اس کے ماضی کی پوری داستان اس کے سامنے ہوبہو دہرا دی تو اچانک اس کی زبان بند ہو گئی۔ اس کے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر اس کا ایسا حال ہوا جیسے وہ گونگا ہو گیا ہے اور اب اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کا جرم اتنا زیادہ ثابت ہو چکا تھا کہ اب اس کو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ میں مجرم ہوں۔ وہ خاموش تھا مگر اس کی خاموشی ہر گفتگو سے زیادہ یقینی صورت میں اس کے جرم کا اقرار بن گئی تھی (ہندستان ٹائمس، 20 فروری 1980ء) ۔

قرآن میں ارشاد ہوا ہے — کہہ دو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تب تم اس کو پہچان لوگے جس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہےوَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا(27:93)۔مذکورہ بالا قسم کے واقعات جو موجودہ زمانہ میں پیش آ رہے ہیں وہ شاید اسی پیشین گوئی کی تصدیق ہیں۔ اللہ کی طرف سے پکارنے والے لوگوں کو آخرت کی چیتائونی دے رہے ہیں۔ مگر آدمی خدائی آواز پر توجہ نہیں دیتا۔ وہ اپنے کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگا رہا ہے۔ داعیٔ حق کے پیغام کو رد کر کے بھی موجودہ دنیا میں وہ اپنے کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہا ہے۔ داعیٔ حق کو ماننا اور اس کا ساتھ دینا اس کو ایسا کام نظر آتا ہے جس کی اسے کوئی ضرورت نہ ہو۔ مگر اس کی پوری زندگی حتیٰ کہ اس کے دل کے ارادے بھی خدا کے چھپے ہوئے انتظام کے تحت ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔ قیامت جب آئے گی تو آدمی کے سامنے اس کی سابقہ زندگی کی یہ فلم اس طرح دُہرا دی جائے گی کہ وہ اپنی سوچ، اپنا قول اوراپنا عمل سب کچھ آنکھوں سے دیکھے گا اور کانوںسے سنے گا۔ اس وقت انسان کا جو حال ہو گا اس کاایک معمولی نقشہ مذکورہ اسکوٹر ڈرائیور کے انجام میں نظر آ رہا ہے۔ آدمی اس وقت اتنا بدحواس ہو گا کہ وہ اپنے الفاظ بھول جائے گا۔ اس کے دلائل اس وقت بالکل بے معنیٰ معلوم ہوں گے۔ اس کا انکار اس وقت ایک ایسی چیز کا انکار بن جائے گا جو ساری کائنات میں اسی طرح معلوم اور ثابت شدہ بن چکا ہو جیسے ہمارے سروں پر چمکنے والے سورج اور چاند۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom