تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے
ڈاکٹر جے وی نارلیکر (پیدائش 1939ء) سے ایک انٹرویو میں کہا گیا کہ ’’مذہبی توہمات‘‘ کی پرستش میں سائنس داں دوسرے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ کتنے سائنس داں دیوتائوں تک میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں عالمی شہرت کے سائنس داں ڈاکٹر نارلیکر نے جواب دیا: ’’مجھے یہ بات بے حد ناپسند ہے۔ عملاً میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے سائنس داں ، جب اپنی تجربہ گاہ میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو وہ سائنٹفک نقطۂ نظر کو اپناتے ہیں، مگر جب وہ اپنے گھر جاتے ہیں تو وہ سائنٹفک طریقہ کا بالکل استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً، مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں جیوتش پر عقیدہ پھیل رہا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ انسان کی اس خواہش نے اس کو جنم دیا ہے کہ وہ آسان اور فوری تسکین کو پا لے۔ یہ حقیقتاً ایک ذہنی سہارا ہے‘‘ (ٹائمس آف انڈیا، 30 اپریل 1979ء)۔
کوئی شخص خواہ جاہل ہو یا عالم، کامیاب ہو یا ناکام، زندگی میں اس کو بار بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں جہاں وہ اپنے عجز کا تجربہ کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بے بس وجود ہے۔ یہ چیز اس کو اپنے سے برتر ہستی کی تلاش کی طرف لے جاتی ہے جو اس کی کمیوں کا بدل بن سکے۔ مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ، جن کے لیے مادی مواقع کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں ، وہ جب اپنی ’’ذہنی تسکین‘‘ کے لیے مابعدالطبعیاتی عقائد کا سہارا لیتے ہیں تو باعتبار حقیقت یہ فرضی نہیں ہوتا۔ یہ دراصل اپنی فطرت کی خاموش پکار کا جواب ہوتا ہے۔ اگرچہ اپنی تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے وہ ’’جیوتش‘‘ جیسی توہماتی چیزوں میں اٹک جاتے ہیں— خدا کا وجود نہ صرف یقینی ہے بلکہ وہ انسان کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔