سائنس توحید کی طرف
علم طبیعیات میں، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں:
—1قوت کشش(gravitational force)
—2برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)
—3طاقتور نیو کلیر قوت(strong nuclear force)
—4کمزور نیو کلیر قوت(weak nuclear force)
کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جبکہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا‘۔ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں اور اسی طرح تمام دوسرے کُرّوں میں، جذب و کشش کی قوت کار فرما ہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریہ میں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلمہ اصول فطرت کے طور پر مانا جاتا ہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے نے 1821ء میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آ جاتی ہے(6 جنوری1980ء)۔
ابتدائی50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچہ کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کر رہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقتور نیو کلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیدا ہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز(نیوکلیس) الیکٹران سے گھرا ہوا ہے جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر الیکٹران وہی چارج رکھتا ہے جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الیکٹران میں منفی برقی چارج ہوتا ہے اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الیکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔ مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل اور قائم (stable)رہتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الیکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہ طبیعیاتی طور پر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوت کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلی ہے جن کو میسن (masons) کہا جاتا ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طورپر یکساںidentical)) سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیں اور دونوں کے یکساں رخ(سائوتھ پول کو سائوتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کو ایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں اور اس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں جو ان کو جوڑتی ہے، اسی کا نام طاقتور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات(نیوٹران، میسن) اچانک ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ صورتحال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلمہ اصول تعلیل(casuality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طور پر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہ کے لیے ایٹم میں جو پراسرار طاقت فرض کی گئی ہے اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے ہے ہیں کہ انہیں چار طاقتوں کے تعامل(interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتے ہی۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طور پر ایک متحدہ اصول(unified theory) کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتا ہے کہ وہ قوانین فطرت کی تعداد کو کم کے اور کوئی ایک ایسا اصول فطرت(principle) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہ کرنے والا ہو۔
آئن سٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification) کی کوشش کی اوراس میں 25 سال سے زیادہ مدت تک لگا رہا مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی موت سے کچھ پہلے اس نے اپنے لڑکے سے کہا تھا: میری تمنا تھی کہ میں اور زیادہ ریاضی جانتا تاکہ اس مسئلہ کو حل کر لیتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام (پیدائش1926ء) اور دوسرے دو امریکی سائنس دانوں(گلاسگو اور وین برگ) کو 1979ء میں طبیعیات کا جو مشترکہ نوبل انعام ملا ہے وہ ان کی اسی قسم کی ایک تحقیق پر ہے۔ انہوں نے مذکورہ قوانین فطرت میں سے آخری دو قانون (طاقتور اور کمزور نیوکلیر فورس) کو ایک واحد ریاضیاتی اسکیم میں متحد کر دیا۔ اس نظریہ کا نام جی ایس ڈبلیو نظریہ (G.S.W Theory) رکھا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ دونوں قوانین اصلاً ایک ہیں۔ اس طرح انھوں نے چار کی تعداد کو گھٹا کر تین تک پہنچا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دریافت کا بڑا سہرا ڈاکٹر عبدالسلام کے سر ہے، مگر ان کو تنہا انعام نہ ملنا دراصل ان کی اس پسماندگی کی قیمت ہے کہ وہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں جو اس قسم کی کسی تحقیق کا سازو سامان اپنے پاس نہیں رکھتا۔ ایسی تحقیق صرف ایسے اداروں میں ہو سکتی ہے جن کے پاس ٹنوں روپیہ ہو، انتہائی قیمتی مشینیں ہوں اور کسی تحقیق کے لیے وہ درجنوں سائنس دانوں کی خدمات حاصل کر سکتے ہوں۔ ایسے ادارے یا امریکا میں ہیں یا جاپان میں یا مغربی یورپ میں۔
سائنس اگرچہ اپنے آپ کو’’کیا ہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (1831-1879ء) وہ شخص ہے جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction) کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کا جو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھا کہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— وہ کون خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں:
Who was the God who wrote these singns?