عالم آخری کی تمثیل
ایک کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بول رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ وہ اپنے سامنے ایک پوری دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ مگر یہ وہی دنیا ہے جو محسوس طور پر نظر آتی ہے۔ بظاہر محسوس دنیاکے سوا کوئی اور دنیا نہیں جو وہاں اپنا وجود رکھتی ہو۔
اتنے میں ایک شخص سامنے رکھے ہوئے ٹیلی وژن سٹ کو چلا دیتا ہے۔ اچانک اس کے شیشہ پر ایک اور دنیا دکھائی دینے لگتی ہے جو ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ چلتے پھرتے انسان ان کی آوازیں، ان کے مکانات، ان کی کارگزاری سب آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
آخرت کا نظریہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ دنیاکے پرے ایک اور دنیا ہے۔ یہ دوسری دنیا اسی طرح ایک مکمل دنیا ہے جس طرح ہماری موجودہ نظر آنے والی دنیا۔ ٹیلی وژن گویا اس نظریہ کی عملی تصدیق ہے۔ ٹیلی وژن کا تجربہ بتاتا ہے کہ کس طرح موجودہ محسوس دنیا کے اندر ایک اور دنیا موجود ہو سکتی ہے۔ ٹیلی وژن کی دنیا ہمارے گردوپیش پوری طرح موجود ہوتی ہے مگر وہ صرف اس وقت ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے جبکہ ٹیلی وژن سٹ کو چلا یا جائے۔ اسی طرح آخرت کی دنیا پوری طرح یہاں موجودہے۔ البتہ وہ ہمارے مشاہدہ میں اس وقت آئے گی جبکہ خدا اس کے ظہور کا حکم دے دے۔
سائنس میں اکثر کسی چیز کو’’ماڈل‘‘ سے سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دنیا گویا ایک قسم کا مادی ماڈل ہے جس کے ذریعہ ہم غیر مادی حقیقتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری دنیا ایک اعتبار سے بالاتر حقیقتوں کا آئینہ ہے، آدمی اگر سنجیدہ طور پر سوچے تو وہ اس کے اندر اپنے تمام سوالات کا جواب پا لے گا۔
خدا ،وحی اور آخرت غیب کی چیزیں ہیں۔ انسان اپنی موجودہ نگاہ سے ان کو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر دنیا میں بہت سی چیزیں، بلکہ تمام اعلیٰ حقیقتیں وہ ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔ آدمی قرائن کی بنیاد پر ان کو مانتا ہے۔ یہی معاملہ خدا ، وحی اور آخرت کا بھی ہے۔ یہ چیزیں بلاشبہ موجودہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔ مگر ایسے واضح قرائن موجود ہیں جو ہم کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ چیزیں حقیقی ہیں اور یقینی طور پر وہ اپنا وجود رکھتی ہیں۔
آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو وہ ان کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا۔