خلاصہ
برنہار باونک کا یہ کہنا کہ’’سائنس مذہب کے راستہ پر‘‘ جا رہی ہے، اوپر کی تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کا دریا دوبارہ وہیں پہنچ گیا جہاں سے اس نے مذہب کو چھوڑا تھا۔ یعنی یہ کہ کائنات اپنی آخری حقیقت کے اعتبار سے ایک غیر مادی واقعہ ہے، نہ کہ صرف بے جان اور بے شعور مادہ کا بے معنی رقص۔
مزید یہ کہ ہماری دنیا میں جو اسباب کام کر رہے ہیں وہ امکانی طور پر بہت سے مختلف اور متضاد نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ مگر کائناتی نظام حیرت انگیز طور پر یہ کرتا ہے کہ واقعات کے رخ کو غیر موزوں نتائج کی طرف جانے سے روکتا ہے اور اس کو صرف موزوں نتائج کی طرف لے جاتا ہے۔ کائنات کی یہ غایاتی طبیعت (teleological nature) صریح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ عالم واقعات کے پیچھے ایک باشعور ارادہ کام کر رہا ہے۔ اس صورت حال کی کوئی دوسری توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔
کائناتی نظام میں عدم تعین، بالفاظ دیگر انتخابیت کا ہونا اور اس کا مسلسل برقرار رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو ہر آن خارج سے’’رہنمائی‘‘ دی جا رہی ہے۔ سر آرتھر اڈنگٹن نے بجا طور پر نشان دہی کی ہے کہ جدید کوانٹم نظریہ کا یہ پہلو بے حد حیرت انگیز ہے۔ کیوں کہ یہ الہام کے مذہبی عقیدہ کی سائنسی تصدیق کر رہا ہے:وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا (41:12)۔ یعنی، اور ہر آسمان میں اس کا حکم بھیج دیا۔