سائنس مذہب کے راستہ پر
اگرچہ ہر زمانہ میں خدا اور مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت رہی ہے، خاص طور پر قدیم زمانہ میں تو اسی نقطۂ نظر کو عمومی غلبہ حاصل تھا۔ تاہم تقریباً ہر زمانہ میں یہ بحث جاری رہی ہے کہ اس عالم کا کوئی خدا ہے یا یہ یونہی اپنے آپ بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ فلسفہ میں اس بحث کو جو عنوان ملا وہ ایک کے لیے عینیت(idealism) اور دوسرے کے لیے مادیت (materialism) تھا۔
عینیت یا آئیڈیلزم، خالص فنی تفصیلات کو چھوڑ کر، اس نقطہ نظر کی حامی رہی ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت روحانی(spiritual) ہے۔ یعنی جو حسی مناظر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، ان کا کوئی حقیقی وجود ہمارے دماغ کے باہر نہیں ہے۔ آئیڈیلزم، ایک معنی میں، اگرچہ افلاطون (427-347ق م) کے زمانہ سے موجود رہی ہے۔ مگر موجودہ مفہوم میں وہ اٹھارویں صدی میں جارج برکلے (1685-1753ء) سے شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں یہ سوال تھا کہ اگر اشیاء کا وجود صرف ذہنی ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ مادی چیزیں اس وقت بھی موجود رہتی ہیں جب کہ کوئی شخص ان کو دیکھ نہ رہا ہو۔ برکلے نے جواب دیا کہ ان اشیاء کا وجود خدا کے ذہن میں ہے۔ اس طرح اس نے آئیڈیلزم کو خدا کے وجود پر ایک نئی دلیل کی حیثیت دے دی۔
کانٹ(1724-1804ء) کے زمانہ میں اس فکر نے نئی وسعت اختیار کی اور ایک مستقل اسکول کی حیثیت سے قائم ہوگیا۔ جرمنی، انگلینڈ، فرانس، امریکا، ہر جگہ اس کے بڑے بڑے وکیل پیدا ہوئے۔ تاہم پہلی جنگ عظیم(1914-18ء) کے بعد اس فکر کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے برعکس مادیت یا مٹیریلزم، اپنے مختلف مدارس فکر کے ساتھ، اس نقطہ نظر کی حامی رہی ہے کہ اس عالم میں جو کچھ ہے، وہ سب کا سب مادی ہے اور مادہ کے باہر اس کا کوئی وجود نہیں۔ اس نظریہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں صرف ایک حقیقت ہے اور وہ مادہ ہے۔ حتیٰ کہ خود انسان بھی، معروف عقیدہ کے مطابق دو چیزوں— جسم اور روح — کا مجموعہ نہیں، بلکہ بنیادی طور پر وہ صرف ایک ہی حقیقت رکھتا ہے اور وہ اس کا مادی جسم ہے۔
اس نقطہ نظر کا پہلا سراغ ایپی کیورس(342-270 ق م) کے یہاں ملتا ہے جس کا خیال تھا کہ تمام چیزیں، اپنے آخری تجزیہ میں، چھوٹے چھوٹے ناقابل مشاہدہ اجزاء سے مل کر بنی ہیں۔ اس مادی نظریہ نے سترھویں صدی میں نئی قوت پکڑی جب ہو لباخ کی کتاب سسٹم آف نیچر(1770ء) شائع ہوئی۔ اس کے وکیلوں کی فہرست، باہمی اختلاف کے باوجود، بہت لمبی ہے۔ بیسویں صدی میں مٹیریلزم کی دو بڑی شاخیں بن گئیں۔ ایک جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) جوکہ کمیونسٹ دنیا کا سرکاری فلسفہ ہے۔ دوسرے وہ جس کو طبیعیت(physicalism) کہا جاتا ہے۔ مٹیریلسٹ، ذہن کو بھی مانتے ہیں، مگر ان کے نزدیک ذہن محض مادی جسم کا ایک عمل (function) ہے۔ مادی جسم سے الگ اس کا کوئی مستقل وجود نہیں۔
آئیڈیلزم اور مٹیریلزم کی یہ کش مکش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی افکار کی تاریخ پرانی ہے۔ آئیڈیلزم، حقیقتاً مذہب کی وکیل نہ ہونے کے باوجود اس اعتبار سے مذہب کا فلسفیانہ سہارا رہی ہے کہ وہ آخری حقیقت کو غیر مادی ثابت کرتی ہے، جیسا کہ خود مذہب کا دعویٰ ہے۔ اس کے برعکس مٹیریلزم نے انکار خدا کے لیے فکری زمین مہیا کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ کیوں کہ اس کے نزدیک حسی دنیا سے باہر کسی چیز کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
پچھلی صدی میں جدید طبیعی سائنسوں کے وجود میں آنے کے بعد اس نقطہ نظر نے مزید وسعت اختیار کی۔ اب سائنس کے تشریحی علم کے طور پر سائنٹفک مٹیریلزم پیدا ہوا۔ علم طبقات الارض اور حیاتیاتی ارتقاء کے نظریہ میں لوگوں نے اس کی زبردست تصدیق پائی— عام طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ زندگی اور دماغ بے جان مادہ ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ فزیالوجی کی ترقیاتی نے اس کو مزید مستحکم کیا کیوں کہ اس کے مطالعہ سے ثابت ہوا کہ ذہنی زندگی اور اس کی وسعت کا انحصار دماغ(brain) کی جسامت پر ہے۔ اگرچہ اس کے بڑے بڑے وکیل مثلاًکارل واٹ (1895ء) اور لڈوگ بشنر (1824-1899ء) واضح طور پر ثابت نہ کر سکے کہ دماغ کی واقعی حقیقت کیا ہے، تاہم جدید طبیعی دریافتوں کے بعد عام طور پر سمجھ لیا گیا کہ سائنس نے مٹیریلزم کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ سترھویں صدی سے شروع ہو کر انیسویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ مٹیریلزم جدید علمی دنیا کی فاتح ہے اور اب علمی اور منطقی طور پر مذہب کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
فکری طور پر اس مٹیریلزم کے دو رُخ تھے۔ ایک،یہ کائنات سرتاسر ایک مادی وجود ہے، اس لیے یہاں کسی غیر مادی ہستی(مثلاً خدا) کو ماننے کا کوئی سوال نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں، ان کے پیچھے معلوم مادی اسباب ہیں، اس لیے کسی رب اور قیوم کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مٹیریلزم کا پہلا پہلو خدا کے وجود کا انکار کر رہاہے۔ دوسرا پہلو خدا کے وجود کو ناممکن تو نہیں بتاتا، البتہ اس کے مطابق ابتدائی پیدائش کے بعد اس نظام کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نہیں۔ والٹیر (1694-1778ء) کے الفاظ میں، اگر خدا ہے تو ہماری دنیا سے اس کو وہی تعلق ہے جو ایک گھڑی سے اس کے ابتدائی بنانے والے کو۔ تاہم ہیوم (1711-1776ء) نے اس ’’بے جان اور بے کار‘‘ خدا کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ اس نے ’’گھڑیاں بنتے ہوئے دیکھی تھی مگر دنیائیں بنتی ہوئی نہیں دیکھی۔‘‘
مگر انیسویں صدی کا خاتمہ درحقیقت ان تمام نظریات کا بھی خاتمہ تھا۔ موجودہ صدی میں خود سائنس نے جو حقائق دریافت کئے ہیں، انھوں نے ان سارے خیالات کی آخری طور پر تردید کر دی ہے۔
نیوٹن کی میکانکس کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ اگر کسی شے کی موجودہ حالت معلوم ہو تو اس کی سابق یا آئندہ حالت قطعی طور پر متعین ہو جائے گی اور محض قوانین حرکت کی بنا پر علم ریاضی کی مدد سے ازل سے ابدتک اس کی تمام حالتوں کی پیش بندی کی جا سکے گی۔ میکانکس کا یہی مسئلہ تھا جو مادہ پرستوں کے لیے حکم فیصل کا کام دیتا تھا اور جس کی بنا پر وہ کسی خالق کے تصور کو غیر ضروری قرار دیتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک کائنات کی ہر حالت، ہر لمحہ متعین ہے اور وہ اس کے مطابق خود بخود تشکیل پاتی چلی جا رہی ہے۔
فطرت کے باقاعدہ قانون کی حیثیت سے یہ اصول تعلیل(law of causation) مسلّمہ طور پر سترھویں صدی میں مان لیا گیا، وہ عظیم صدی جو گلیلیو(1564-1642ء) اور آئزک نیوٹن (1642-1727ء) کی صدی کہی جاتی ہے اس سے پہلے دمدار ستارے (comets) کے ظہور کو بادشاہت کا خاتمہ یا کسی بڑے آدمی کی موت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس صدی میں تجاذب کے آفاقی قانون کے تحت اس کی توجیہ معلوم کرلی گئی۔’’اور‘‘ نیوٹن نے لکھا:’’اسی طرح قدرت کے دوسرے واقعات بھی میکانکی اصولوں(mechanical principles) کے تحت معلوم کر لیے جائیں گے۔‘‘
اس طرح ایک زبردست تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا مقصد عالم مادی کو ایک مشین ثابت کرنا تھا۔ یہ تحریک انیسویں صدی کے نصف آخر میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ یہی وقت تھا جب ہیلم ہولٹز(1821-1894ء) نے کہا’’تمام فطری علوم کا آخری مقصد بالآخر اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کر لینا ہے۔‘‘ لارڈ کلوین(1824-1907ء) نے اعتراف کیا کہ’’جب تک میں کسی چیز کا میکانیکل ماڈل نہیں بنا لیتا، میں اس کو سمجھ نہیں سکتا۔‘‘ واٹرسٹن میکسویل(1879-1931ء) اور دوسروں نے نہایت کامیابی کے ساتھ گیس کی مشینی تشریح پیش کی۔ ان کے نزدیک گیس نہایت چھوٹے چھوٹے سخت ترین ذرات کا مجموعہ تھی جو اِدھر اُدھر تتلیوں کی طرح اڑتے پھرتے تھے۔ اسی طرح رقیق اشیاء، روشنی اور تجاذب وغیرہ کی تشریحات کی گئیں۔ اگرچہ انھیں اس کوشش میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ مگر ان کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ساری کائنات مشینی توجیہ (mechanical interpretation) کو قبول کر لے گی۔
’’جب ساری کائنات اصول تعلیل میں بندھی ہوئی ہے تو انسان اس سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتا ہے۔‘‘ اس سوال نے انسان کو یہاں تک پہنچایا کہ خود انسان بھی ایک مشین بن گیا۔ اس سے سترھویں اور اٹھارویں صدی کے مشینی فلسفے(mechanistic philosophies) پیدا ہوئے۔ جب معلوم ہوا کہ زندہ اشیاء بھی ٹھیک اسی کیمیکل ایٹم سے بنی ہیں جس سے غیر جاندار اشیاء، تو اس یقین میں کوئی شبہ نہ رہا کہ دونوں کی نوعیت بالکل ایک ہے۔ زور شور کے ساتھ دعویٰ کر دیا گیا کہ زندگی خود بھی اپنے آخری تجزیہ میں محض ایک مشینی چیز ہے۔ نیوٹن یا باخ یا مائیکل انجلو کے دماغ کسی چھاپہ خانہ سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے، ورنہ دونوں میں کوئی حقیقی فرق نہ تھا۔
مگر انیسویں صدی کے آخر میں جب کہ فلاسفہ اس بحث میں مشغول تھے کہ کیا ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو نیوٹن یا باخ(1685-1750ء) کے خیالات کا اعادہ کر سکے، مظاہر فطرت خصوصاً روشنی (radiation) اور تجاذب(gravitation) کی خالص میکانکی توجیہ کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ سائنسداں تیزی سے اس یقین تک پہنچ رہے تھے کہ کوئی مشین بلب کی روشنی یا سیب کے گرنے کا اعادہ نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ انیسویں صدی کے آخر میں پروفیسر میکس پلانک (1858-1947ء) نے روشنی کے متعلق ایسے نظریات پیش کیے جو کسی بھی طرح میکانیکی تشریح کو قبول کرنے والے نہ تھے۔ چنانچہ ابتداء میں اس بنا پر اس پر تنقید کی گئی بلکہ اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر بالآخر اس کے نظریات کو انٹم نظریہquantum theory کی شکل میں جدید طبیعیات کے مسلمات میں شامل ہوگئے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے میکانیکل دور کا خاتمہ اور نئے عہد کا آغاز کیا۔
میکس پلانک کا نظریہ ابتداء میں صرف یہ معنی رکھتا تھا کہ قدرت جھٹکوں اور چھلانگوں (jumps and jerks) کی صورت میں سفر کرتی ہے، جیسے کہ گھڑی کی سوئی۔ مگر آئن سٹائن نے 1917ء میں دکھایا کہ پلانک کا نظریہ محض عدم تعین(discontinuity) سے زیادہ انقلابی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اصول تعلیل کا خاتمہ کر رہا ہے جس کو نظام قدرت کا طبیعی رہنما سمجھ لیا گیا تھا۔ قدیم سائنس نے دعویٰ کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کر سکتی تھی جو علت و معلول کے تحت اول روز سے مقدر ہوگیا تھا۔ مگر اب اس پر یقین کرنا ناممکن ہوگیا۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔ جیسا کہ معلوم ہے، ریڈیم اور دوسرے ریڈیائی عناصر (radio-active elements) کے ایٹم ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ یہ عناصر سیسہ اور ہیلیم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایٹم کیوں ٹوٹتے ہیں، اس کے متعلق تعلیل کے سارے ممکن قیاسات غلط ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ قیاس کہ ممکن ہے یہ ایٹم الیکٹران کی حرکت سے پیدا ہونے والی گرمی سے ٹوٹتے ہوں، صحیح نہیں۔ کسی مخصوص ایٹم پرخارج سے گرمی پہنچا کر اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ تجربہ کیا گیا اور ناکام رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ردرفورڈ (1871-1937ء) اور ساڈی (1877-1956ء) نے 1903ء میں خود بخود انتشار (spontaneous disintegration) کا مفروضہ قائم کیا جو خالص طبیعی نقطہ نظر سے، توجیہ نہیں بلکہ توجیہ کی نفی ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز میں جب میک لینان اور ردر فورڈ اور دوسروں نے کائناتی شعاعوں کی دریافت کی تو سمجھا گیا کہ یہی شعاعیں ہیں جو کہ ریڈیائی عناصر میں انتشار کا سبب ہیں۔ مگر تجربہ سے یہ بھی غلط ثابت ہوا۔
عام روشنی کسی مادہ میں ایک انچ سے بھی کم داخل ہوتی ہے۔ ایکسرے کی شعاعیں اس سے کہیں زیادہ نفوذ کی طاقت رکھتی ہیں۔ وہ ہمارے پورے جسم کو پار کر جاتی ہیں۔تاہم ایک سکہ کے برابر دھات کا ٹکڑا ان کے نفوذ کو روک دیتا ہے۔ مگر کائناتی شعاعیں سیسہ اور دیگر سخت دھاتوں میں کئی گز تک اتر جاتی ہیں۔ اس لیے یہ قیاس بہت آسان تھا کہ ریڈیائی انتشار کا سبب یہی شعاعیں ہیں۔ مگر یہ قیاس نہایت سادہ تجربے سے غلط ثابت ہوگیا۔ ریڈیائی عنصر کے ایک ٹکڑے کو کوئلہ کی کان کے نیچے لے جایا گیا۔ اب وہ کائناتی شعاعوں کے حملہ سے بالکل محفوظ تھا۔ مگر اس کے اندر جوہری انتشار اب بھی اسی طرح جاری تھا۔
کائنات کے ان ناقابل توجیہہ مظاہر کا ذکر کرتے ہوئے ایک سائنس داں لکھتا ہے:
The future may not be as unalterably determined by the past as we used to think, in part at least it may rest on the knees of whatever gods there be.
(Sir James jeans, The Mysterious Universe, the University press, Cambridge,1948, p.22.)
کائنات کا مستقبل اس طرح غیر متغیر طور پر ماضی سے بندھا ہوا نہیں ہے جیسا کہ ہم نے سمجھ لیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہرحال خدائوں سے متعلق ہے، خواہ وہ خدا جو بھی ہوں۔
دوسری تحقیقات بھی اسی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ مثلاً پروفیسروارنر ہیزن برگ (وفات1976ء) نے 1927ء میں بتایا کہ کوانٹم نظریہ ایک اور نتیجہ تک پہنچا رہا ہے جس کو انھوں نے نظریہ عدم تعین (principle of Indeterminacy) سے تعبیر کیا۔ روایتی طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ قدرت ایک ہی متعین رخ پر نہایت صحت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ مگر ہیزن برگ نے دکھایا کہ قدرت سب سے زیادہ اسی مفروضہ کی تردید کر رہی ہے۔ چنانچہ آج طبیعی سائنس کا مسلمہ قانون ہے کہ نہ صرف کائنات بلکہ اس کے کسی حصہ یہاں تک کہ کسی ایک ذرہ کا مستقبل بھی قطعی طور پر متعین نہیں ہے۔ وہ کئی ممکن حالتوں میں سے کسی ایک حالت کو اختیار کر سکتا ہے۔ اس طرح قوانین قدرت تعینی (deterministic) نہیں بلکہ اوسطی (statistical)ہو جاتے ہیں۔
انیسویں صدی کی طبیعیات میں مادہ اور توانائی ایک دوسرے کے متضاد تصورات تھے۔ مادہ کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ ایک جسمانی شے ہے جو ایک محدود فضا کو بلاشرکت غیر گھیرتی ہے اور جس کا ایک مستقل وزن ہوتا ہے، جس کو کم و بیش یا معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی مادی شے حرکت کرتی ہے تو وہ ایک ہی خط میں ایک ذرہ کی طرح حرکت کرتی ہے۔ آواز یا روشنی کی موجوں کی طرح پوری فضا میں نہیں پھیل جاتی۔ اس کے برخلاف روشنی اور توانائی کے متعلق یہ خیال تھا کہ نہ تو وہ کوئی جسمانی شے ہے اور نہ کسی محدود فضا کو بلاشرکت غیر گھیرتی ہے۔ اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ اور وہ ذرہ کی طرح حرکت نہیں کرتی بلکہ موجوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہے۔ اس’’دوئی‘‘ نے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ کائنات کی اصل مادہ ہے۔ توانائی اس مادہ کا ایک اضافی مظہر ہے۔ اس کا علیحدہ کوئی وجود نہیں۔
جدید طبیعیات میں مادہ اور توانائی کا یہ اختلاف ختم ہوگیا ہے اور تجربوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مختلف شکلیں ہیں۔ کبھی مادہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کبھی توانائی مادہ میں۔ کسی مادی شے کی کمیت مستقل نہیں بلکہ وہ اس کی حرکت پر منحصر ہوتی ہے اور رفتار کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک مادی شے کبھی ذرے کی طرح ایک خط میں حرکت کرتی ہے اور کبھی موجودہ کی طرح پھیلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ مادہ کے توانائی میں منتقل ہونے کا یہی اصل اصول ہے جس کی بنا پر ایٹم بم بنایا گیا ہے۔
1900ء میں پلانک نے کوانٹم کا انکشاف کیا اور بتایا کہ توانائی اور مادی نظام کی حالتوں میں تبدیلی مسلسل نہیں بلکہ ایک خاص قلیل ترین مقدار یعنی کوانٹم کے اضعاف (multiples) کے متناسب ہوتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد قائم ترین زمانہ سے طبیعی کائنات میں تغیر و تبدل کے مسلسل اور تدریجی ہونے کا جو تصور چلا آ رہا تھا، وہ ختم ہوگیا اور اس کی وجہ سے نیوٹن کی میکانکس میں ایک غیر معمولی انقلاب رونما ہوا۔
ایٹم کے متعلق 1895ء تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مادہ کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے جس کی مزید تقسیم نہیں کی جا سکتی۔ مگر اس کے بعد پتہ چلا کہ ہر ایٹم کے اندر بہت سے اور چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جن کو الیکٹرون، پروٹون نیوٹرون وغیرہ کہتے ہیں۔ کسی ایٹم کا مادہ مسلسل پھیلا ہوا نہیں ہوتا بلکہ یہ ذرے اس کے اندر نظام شمسی کی طرح ترتیب دیے ہوتے ہیں اور چند معینہ مداروں پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ ایٹم کے مختلف ذروں کے درمیان اسی طرح وسیع خلا ہوتا ہے جیسے سورج اور اس کے تابع سیاروں کے درمیان۔ ایٹم کے مرکزی حصہ میں، جس کو نیوکلیس کہا جاتا ہے، اس کا تقریباً تمام مادہ مرتکز ہوتا ہے اور اس کی شکست وریخت سے ایٹم کی ماہیت بھی بدل جاتی ہے اور ایٹمی توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اب تو ایسے ذروں کی کثیر تعداد دریافت ہوئی ہے جو دو مادی ذروں یا ایک مادہ ذرہ اور اشعاع(radiation) کے باہمی تعامل کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اس طرح جدید طبیعیات نے قدیم مادہ کی بنیاد ہی سرے سے منہدم کر دی۔ علمی دنیا کا یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب نیوٹن کے نظریوں پر مبنی طبیعیات انیسویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی،عین اسی زمانہ میں پے درپے ایسے تجربات اور مشاہدے ہوئے کہ خود اس علم کی بنیادیں ہل گئیں اور علم طبیعیات میں ایک ہمہ گیر انقلاب رونما ہوا۔ مادہ اور توانائی، ذرہ اور موج، جوہر اور عنصر، زمان و مکان اور علت و معلول جیسے بنیادی تصورات ہی سرے سے بدل گئے اور خود قوانین قدرت کا بھی نیا مفہوم لیا جانے لگا۔ یہی وہ تغیرات ہیں جنہوں نے نیوٹن اور میکسویل کی طبیعیات کے بجائے اس جدید طبیعیات کی تشکیل کی جس کی بنیاد کو انٹم اور اضافیت کے نظریوں پر قائم ہے۔
برٹرینڈرسل(1872-1970ء) کے الفاظ میں آج’’ماہرین طبیعیات ہم کو یقین دلا رہے ہیں کہ مادہ جیسی کوئی شے سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتی۔ دوسری طرف ماہرین نفسیات باور کرا رہے ہیں کہ ذہن جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتا ہے’’آج کا جدید مادہ پرست بننے کی کوشش کرنے والا اپنے آپ کو عجیب کش مکش میں مبتلا پاتا ہے۔ کیوں کہ جہاں ایک طرف ایک خاص حد تک ذہن کے افعال کو وہ کامیابی کے ساتھ جسم کے افعال کے ماتحت ثابت کر سکتا ہے، وہیں دوسری طرف اس واقعہ سے بھی مفر نہیں پاتا کہ جسم بجائے خود محض ذہن کا ایجاد کیا ہوا ایک سہولت پیدا کرنے والا تصور ہے۔‘‘
’’سیدھا سادا عام آدمی مادی چیزوں کے وجود کو یقینی ہی پاتا ہے کیوں کہ وہ حواس کے لیے بالکل بین اور بدیہی ہوتی ہیں۔ اور جو کچھ بھی مشکوک ہو، اتنا یقینی ہے کہ جس چیز کو تم ٹھوکر مارتے ہو، دھکیلتے ہو، دھکا دیتے ہو یا جس سے ٹکراتے ہو، اس کو حقیقی اور واقعی ہی ہونا چاہیے۔‘‘ مگر حقیقت کیا ہے؟۔
’’عالم طبیعیات(physicist) ثابت کرتا ہے کہ تم کبھی کسی چیز سے ہر گز نہیں ٹکراتے۔ حتیٰ کہ جب تمہارا سر کسی پتھر کی دیوار سے ٹکراتا ہے تو حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے تم اس کو مس(touch) تک نہیں کرتے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ کچھ الیکٹران اور پروٹان جو تمہارے جسم کا حصہ ہوتے ہیں، ان میں اور اس چیز کے الیکٹران اور پروٹان کے مابین جس کو تم سمجھتے ہو کہ چھو رہے ہو، صرف جذب و دفع کا عمل ہوتا ہے۔ لیکن اس عمل میں فی نفسہ دو جسموں میں کوئی لمس و اتصال نہیں پایا جاتا۔ محض اتنا ہوتا ہے کہ تمہارے جسم کے الیکٹران اور پروٹان سے جب دوسرے جسم کے الیکٹران اور پروٹان قریب ہوتے ہیں تو ان میں ایک ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ یہی ہیجان و اختلال تمہارے اعصاب کے واسطہ سے دماغ تک پہنچتا ہے۔ بس یہی دماغی تاثر لمس یا اتصال کا احساس پیدا کر دینے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‘‘
Bertrand Russell, The will to Doubt.
جدید سائنس کی رو سے یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے کہ ہمارے ذہن کے باہر کسی مادی شے کا کوئی وجود ہے۔ رسل کے الفاظ میں یہاں صرف’’الیکٹرانوں کا مجنونانہ رقص (mad dance) پایا جاتا ہے اور اس میں اور ہمارے لمس وغیرہ کے براہ راست محسوسات یا اشیاء میں کوئی مماثلت یا مشابہت بس برائے نام ہے۔‘‘ بقول سر آرتھر اڈنگٹن موجودہ علمائے طبیعیات کا’’یہ اعلان و اعتراف کہ طبیعیات خارجی صداقت یا اس کے کسی جزوی حصہ کا کوئی علم عطا نہیں کر سکتی، اس نظریہ کی توثیق ہے کہ طبیعیاتی طریقوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ تمام تر ذہنی(subjective) ہوتا ہے۔‘‘
Arthur Eddington. Philosophy of physical Science.
’’جس طرح الفاظ، اشیاء کے نمائندہ نہیں ہوتے، محض ان کی علامات ہوتے ہیں، جیسے روٹی کا لفظ روٹی کی واقعی کسی شکل و صورت، رنگ و بو وغیرہ کی تصویر یا عکس و نقشہ نہیں ہوتا، اسی طرح ہم اشیائے خارجی کے متعلق جو تصورات رکھتے ہیں، وہ ان کی واقعی حقیقت و نوعیت کو نمایاں کرنے والی کوئی تصویر یا مثنیٰ مطلق نہیں ہوتے، بلکہ محض علامات (symbols) ہوتے ہیں، جیسے ریاضی و ہندسہ میں اے۔ بی۔ سی۔ وغیرہ حروف محض علامات ہوتے ہیں، ویسے ہی الیکٹران، پروٹان وغیرہ علم طبعیات کی اے۔ بی۔ سی۔ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طبیعیات کا حاصل اب کچھ ریاضیاتی علامات(symbols) اور ان کی مساواتیں (equations) ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ علامات کس شے یا حقیقت کی ہیں، اس کا پراسرار جواب یہ ہے کہ طبیعیات کو اس سے مطلب نہیں اور نہ اس کے پاس ان علامات کی تہ میں جانے کا کوئی ذریعہ ہے‘‘۔’’ ان علامات کے پس پردہ جو چیز کام کر رہی ہے، اس اس کی حقیقت کے متعلق کوئی قطعی حکم لگانا تو درکنار، طبیعیات کو تو اس کے برعکس انتہائی قطعیت کے ساتھ اصرار ہے کہ اس کے طریقے (methods) علامیت(symbolism) کے پس پردہ کسی طرح جا ہی نہیں سکتے:
Eddington. Science and the Unseen World.
اس طرح اڈنگٹن کے الفاظ میں طبیعیات کی خارجی دنیا(external world) محض سایوں کی دنیا(world of shadows) بن کر رہ گئی ہے۔
پچھلی صدی تک مادہ سب سے بڑی حقیقت تھا۔ پروفیسر ٹائٹ(Tiet) نے ’’طبیعیاتی سائنس کی بعض ترقیوں پر لکچر دیتے ہوئے1876ء میں کہا تھا’’مادہ کے حقیقی ہونے یا اس کے خارجی(objective) وجود کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسان کے پاس کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کو پیدا یا فنا کر سکے۔‘‘
Quoted by James B. Conant.
The Modern Science and Modern Man.1952. p.55-57
مگر اب یہ مادہ ٹوٹ چکا ہے’’ہیرو شیما کی بربادی مادہ ہی کے فنا کا نتیجہ تھی‘‘ جدید ایٹمی سائنس کی بنیاد تمام تر اسی عقیدہ پر قائم ہے کہ مادہ کی آخری اکائی(ایٹم) کو توڑا جا سکتا ہے۔
سائنس کی دنیا میں اس انقلاب کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بقول برٹرینڈرسل’’حقیقت یہ ہے کہ آج مشکل ہی سے تم کوئی ایسا رسالہ یا کتاب کھولو گے جس میں ہمارے عام سائنسی خیالات سے بحث ہو اور اس کو اس طرح کے بیانات سے دو چار نہ ہونا پڑے—’’گلیلیو کے عہد کا خاتمہ،’’ سائنس کی روح سے دشمنی کا خاتمہ‘‘ ’’میکانکی طبیعیات کی ناکامی‘‘’’ مذہب و سائنس میں مصالحت‘‘ وغیرہ۔
Bertrand Russell, Modern Science and Philosophy.
حتیٰ کہ برنہارڈ باونک(Bernhard Bawink) نے جدید طبیعیات پر اپنی کتاب کا نام ہی رکھ دیا ہے’’سائنس مذہب کے راستہ پر‘‘:
Modern Science on the Path of Religion
اڈنگٹن کے الفاظ میں’’کائنات کا وہ نظریہ جو کشش جیسے ان دیکھے قانون کی کار فرمائی کو مانتا ہے، کیا اس سے کچھ بھی زیادہ سائنسی ہو سکتا ہے جو وحشی انسان ہر اس چیز کو جس کو وہ کچھ پراسرار پاتے ہیں، ان دیکھے دیوی دیوتائوں(demons) کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔
The Nature of Physical World. p.309
سائنس کی ترقی کے بعد جب مشاہدہ کے جدید ذرائع انسان کے ہاتھ میں آئے تو انسان اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ وہ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے دعویٰ کر دیا کہ وہ چیز جو ہمارے’’خوردبینی‘‘ یا ’’دوربینی‘‘ مشاہدات میں نہ آئے، وہ سرے سے کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔
نیوٹن(1642-1727ء) اور آئن سٹائن(1879-1954ء) کے درمیان ایک پورا دور گزرا ہے جبکہ یہ تصور یقین کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ مگر آئن اسٹائن کے بعد جو دور شروع ہوا ہے، اس کے بعد سائنس نے اپنا یہ یقین کھو دیا ہے۔ اب یہ امر بجائے خود مشتبہ ہوگیا ہے کہ یہ عالم معروضی (objective) ہے یا داخلی(subjective)۔ یعنی کائنات کا کوئی خارجی وجود ہے جس کو دیکھا جا سکتا ہے یا وہ صرف ہمارے اندرونی احساسات کا کرشمہ ہے۔ جبکہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ذہن و احساس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ اصل موجود چیز مادہ ہے اور ذہن و احساس صرف اس مادہ کی اضافی پیداوار ہیں۔
19ویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز کی آخری حقیقت ایٹم ہے اور ایٹم چھوٹے چھوٹے’’ذرات‘‘ ہیں جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد ایٹم ناقابل مشاہدہ دنیا میں تحلیل ہوگیا ہے۔ اب سائنس میں عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آخری حقیقت ایک ایسی لطیف شے ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی۔ چنانچہ اب کائنات کی تشریح، کوئی ان الفاظ میں کرتا ہے کہ یہ امکانی لہریں (waves of probabilities) ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ معروف معنوں میں کوئی شئے نہیں بلکہ وقوعات(events) کا ایک سلسلہ ہے۔ کوئی اس کو عالم خیال (universe of thought) کہتا ہے۔ کوئی اس کو بھوت(ghost) سے تشبیہ دیتا ہے کوئی اس کو محض ایک تشکیل (construction) بتاتا ہے۔ کوئی اس کو سایوں کی دنیا (world of shadows) کہتا ہے۔
برٹرینڈرسل نے ان سارے افکار کو ایک طنزیہ جملہ میں اس طرح سمیٹا ہے:
Thus matter has become altogether too ghostly to be used as an adequate stick with which to beat the mind.
مادہ اس طرح ایسا بھوت بن گیا ہے جو ذہن کو ہانکنے کے لیے ایک ڈنڈا نہیں بن سکتا۔ وہ مزید لکھتا ہے:
’’وہ چیز جس کو اب تک ہم اپنا جسم کہتے رہے ہیں، وہ درحقیقت بڑی دیدہ ریزی سے بنائی ہوئی ایک سائنسی تشکیل(construction) ہے جس کی کوئی طبیعیاتی حقیقت نہیں پائی جاتی۔