مذہب کے دروازہ پر
ڈاکٹر فرڈہائل مشہور سائنس داں ہے۔ اس کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’ذہین کائنات‘‘ ڈھائی سو صفحہ کی اس کتاب میں مصنف نے دکھایا ہے کہ کائنات کا جدید سائنسی مطالعہ حیرت انگیز طور پر اس ذہن کی تردید کرتا ہے جو انیسویں صدی میں قائم کیا گیا تھا۔ پہلے یہ سمجھ لیا گیا تھاکہ کائنات محض بے شعور مادہ کی اندھی کارفرمائی ہے۔ مگر بیسویں صدی کے آخر میں سائنس کے مختلف شعبوں میں جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ کائنات محض ایک مادی کائنات نہیں ، وہ ایک ’’ذہین کائنات‘‘ ہے۔ یہاں اندھے مادی عمل کے بجائے ہر طرف ذہن کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
ان تفصیلات کو قلم بند کرتے ہوئے مصنف نے ایک بڑی عبرت انگیز بات لکھی ہے۔ مصنف کا یہ پورا پیراگراف ہم انھیں کے لفظوں میں نقل کرتے ہیں:
This indeed is just what orthodox scientists are unwilling to admit. Because there might turn out to be—for want of a better word religious connotation, and because orthodox scientists are more concerned with preventing a return to the religious excesses of the past than in looking forward to the earth, the nihilistic outlook described than in looking forward to the earth, the nihilistic outlook described above has dominated scientific thought throughout the past century.
Fred Holye, The Intelligent Universe. Michael Joseph Limited, London, 1983
(زمین سے باہر کی طاقت کی کارفرمائی کے حق میں پہاڑ جیسی شہادتیں ملنے کے باوجود) یہ وہ چیز ہے جس کو راسخ العقیدہ سائنس داں تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ انھیں یہ اندیشہ ہے کہ اس کا مذہبی مطلب نکل آئے گا۔ راسخ العقیدہ سائنس داں سچائی کو پانے سے زیادہ اس کے لیے فکر مند ہیں کہ وہ ماضی میں ہونے والے مذہبی مظالم کے اعادہ کو روکیں۔ مذکورہ منکرانہ نقطۂ نظر پوری گزشتہ صدی میں سائنسی خیالات پر چھایا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دور جدید میں علوم فطرت کے مطالعہ نے انسان کو مذہب کے دروازہ پر پہنچا دیا ہے۔ مگر جدید انسان جس کی پرورش عیسائی روایات میں ہوئی ہے وہ اپنی مخصوص تاریخ کی وجہ سے مذہب کے دروازے میں داخل ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔ ’’مذہب‘‘ کا تصور آتے ہی اس کو سولہویں اور سترہویں صدی کے وہ مظالم یاد آنے لگتے ہیں جب کہ یورپ میں سائنس کا آغاز ہوا اور عیسائی مذہب اس کو کچلنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ یہ جدید انسان مذہب کے نام سے صرف عیسائیت کو جانتا ہے اور عیسائیت اس کے نزدیک ایسے بے معنی عقائد کا مجموعہ ہے جس کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ علم کا سامنا کر سکے۔
سرفرڈہائل نے اپنی مذکورہ کتاب ذہین کائنات (The Intelligent Universe) میں لکھا ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں پختہ مذہبی فکر نے یہ کیا کہ زمین کی پوری تاریخ کو بائبل کی روشنی میں چند ہزار سال کے اندر محدود کر دیا۔ اس نقطۂ نظر کی واضح غلطی پہلی بار جیمس ہیوٹن (1726-1797ء) کی تحقیقات سے ظاہر ہوئی جو پختہ مذہبی لوگوں کے سخت خلاف تھی اور اب بھی وہ ان کے سخت خلاف ہے۔ جیمس ہیوٹن نے اپنی ساری عمر زمین اور چٹانوں کے مطالعہ میں گزاری۔ اس کی تحقیقات نے بتایا کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بننے میں کروڑوں سال لگے ہیں۔ عظیم ارضیات داں چارلس لائل (1797-1875ء) کی تحقیقات نے ہیوٹن کے نتائج کو مزید موکد کیا۔ لائل کی کتاب ارضیات کے اصول (Principles of Geology) 1830 ءمیں چھپی۔ یہ کتاب سب سے بڑی وجہ تھی جس نے لوگوں کو مطمئن کر دیا کہ زمین کی عمر کے بارے میں بائبل کا بیان غلط ہے۔ وہ اس قابل نہیں کہ سنجیدہ غور و فکر میں اس کا حوالہ دیا جا سکے (صفحہ28-29)۔
زمین کی عمر (اور اس طرح دوسری چیزوں کے بارے میں) بائبل غیر معتبر ثابت ہوئی تو لوگوں نے یقین کر لیا کہ وہ مذہبی امور کے بارے میں بھی غیر معتبر ہے۔ یہ تاثر یہاں تک پہنچا کہ لوگوں نے خود مذہب ہی کو غیر معتبر چیز سمجھ لیا۔ مذہب کی غلط نمائندگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خود مذہب کو غلط اور ناقابل اعتبار سمجھنے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب آخری طور پر وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو اسلام سے متعارف کیا جائے۔ عیسائیت کی خرابیاں تحریف کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ اسلام چوں کہ تحریف سے پاک ہے اس لیے وہ ان خرابیوں سے بھی پاک ہے۔ اسلام کو اگر اس کی حقیقی شکل میں جدید انسان کے سامنے لایا جائے تو بے شمار لوگ اس پر لبیک کہیں گے ، کیوں کہ ان کے لیے یہ عین وہی چیز ثابت ہو گی جس کا وہ اپنی فطرت اور اپنے علم کے تقاضے کے تحت پہلے سے انتظار کر رہے ہیں۔ بائبل نے انھیں مذہب سے دور کیا تھا ، اسلام دوبارہ انھیں مذہب سے قریب کرنے کا سبب بن جائے گا۔