سننے والا سُن رہا ہے
امریکا کے خفیہ محکمہ (N.S.A) کے ایک سابق افسر نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہےThe Puzzle Palace ۔اس کتاب میں اس کے مصنف نے بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
اندازہ کیا گیا ہے کہ امریکا سے بھیجے جانے والے ٹیلی فون، ٹیلکس اور تار کے پیغامات کی تعداد ہر روز ایک ملین سے زیادہ ہوتی ہے۔ جدید نظام کے مطابق یہ پیغامات پہلے ورجینیا کے زمینی اسٹیشن (earth station) پر موصول ہوتے ہیں۔ وہاں سے وہ مصنوعی سیارہ کی طرف بھیجے جاتے ہیں جو 2300 میل اوپر زمین کے چاروں طرف گھوم رہے ہیں۔ یہ سارا عمل فی الفور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفہ میں انجام پاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مشینی پیغام جو امریکا سے باہر جاتا ہے یا امریکا کے اندر آتا ہے وہ اصل مخاطب تک پہنچنے سے پہلے امریکی حکومت تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ امریکا کا خفیہ محکمہ جن لوگوں کے پیغامات کو جاننا چاہتا ہے ، ان کا نمبر وہ زمینی اسٹیشن کے دفتر میں دے دیتا ہے۔ یہاں مذکورہ افراد کی گفتگوئیں اور پیغامات خودکار آلات کے ذریعہ ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ گویا آپ اگر واشنگٹن سے دہلی کے لیے ٹیلی فون کریں تو آپ کے منہ سے جو الفاظ نکلیں گے ، قبل اس کے کہ آپ کا مخاطب ان کو سنے، امریکا کی حکومت ان کو سن چکی ہو گی۔
ٹائمس آف انڈیا (19 دسمبر 1982ء) کے امریکی نامہ نگار نے اس کی رپورٹ دیتے ہوئے اس کا عنوان قائم کیا ہے۔ ہوشیار! ممکن ہے کہ امریکا آپ کی بات سن رہا ہو
Careful, Unlce Sam may be listening.
اس قسم کے واقعات خدا کی نشانی ہیں۔ وہ اس لیے ہو رہے ہیں تاکہ آدمی اپنی زبان کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔ایک آدمی دوسرے آدمی سے ایک غلط بات کہتا ہے اور وہ سمجھتاہے کہ میں صرف ایک آدمی سے کہہ رہا ہوں مگر آدمی کو جاننا چاہیے کہ اس کی بات اس کے مخاطب سے پہلے خدا تک پہنچ رہی ہے۔ مذکورہ واقعہ زبان حال سے کہہ رہا ہے— اے انسان، ہوشیار رہ، کیوں کہ تیری ہر بات کو خدا سن رہا ہے۔