وحی والہام
قرآن میں ہے کہ اللہ نے شہد کی مکھی کو وحی کیوَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (16:68)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں میں بعض ایسی نشانیاں ہیں جو وہی سے مشابہت رکھتی ہیں۔ ان کا مطالعہ وحی الٰہی کے معاملہ کو انسان کے لیے قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔
وحی کے عقیدہ کا مطلب خارجی ذریعہ علم سے رہنمائی کا آنا ہے۔ جانوروں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے درمیان اس قسم کا ذریعہ علم واضح طور پر موجود ہے۔ جانوروں میں ایسی صفات پائی جاتی ہیں جن کی توجیہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کی جا سکتی کہ یہ مانا جائے کہ ان کو اپنے باہر سے ہدایات مل رہی ہیں۔ انہیں صفات میں سے ایک صفت جانوروں کی مہاجرت (migration) کا معاملہ ہے۔ خاص طور پر مچھلیوں اور چڑیوں کی مہاجرت اپنے اندر ایسی نشانیاں رکھتی ہے جس کے بعد وحی و الہام کے معاملہ کو سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔
یہاں ہم مہاجر چڑیوں (migratory birds) کا حوالہ دیں گے۔ بہت سی چڑیاں ہیں جو خوراک کی تلاش میں یا موسم کی تبدیلی کی بنا پر ایسا کرتی ہیں کہ خاص خاص وقتوں میں اپنے اصل مقام سے ہجرت کر کے دوسرے موزوں تر مقامات پر جاتی ہیں اور پھر ایک خاص مدت کے بعد دوبارہ اپنے سابق مقام پر واپس آ جاتی ہیں۔
ان پروازوں کے بارے میں موجودہ زمانہ میں نہایت وسیع مشاہدات کیے گیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوا ہے کہ یہ پردازیں بے مقصد اڑان کی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ ایک ماہر طیور کے الفاظ میں ان کی حیثیت نہایت اعلیٰ درجہ کے جغرافی بندوبست (geographical arrangement) کی ہے۔ وہ اتنا ہی بامعنی ہیں جتنا کسی انسان کا سوچا سمجھا ہوا سفر بامعنی ہوتا ہے۔ نیز مشاہدات کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ پروازیں انتہائی صحیح طور پر مقرر راستوں (well-defined flyways) پر انجام پاتی ہیں۔
چڑیوں کا یہ سفر نہایت عجیب ہے۔انسان کے لیے صحیح طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ اس نے راستہ اور منزل کی پوری معلومات خارج سے حاصل کر لی ہوں۔ یہ’’ خارجی ذریعہ ‘‘انسان کے لیے دوسروں سے سننا یا دوسروں کی تحقیق کو پڑھنا یا خود بیرونی احوال کا تجربہ کرنا ہے۔ اگر انسان کو تاریخی طور پر جمع شدہ معلومات سے ، آپس کے تبادلہ خیال سے ، یا تعلیم گاہوں کی تعلیم سے کاٹ دیا جائے تو انسان کچھ بھی نہ کر سکے۔
مثال کے طور پر الادریسی نے زمین کے گول ہونے کا ابتدائی تصور ہندی نظریہ عرین (Arin) سے لیا۔ پھر الادریسی کی کتاب کالاتینی ترجمہ پڑھ کر یہ فکر کولمبس تک پہنچا۔ پھر کولمبس کے تجربات سے بعد والوں کے علم میں اضافہ ہوا۔ یہ سلسلہ ایک کے بعد ایک اسی طرح بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ جغرافیہ کا علم ترقی کے اس درجہ تک پہنچا جو آج کے انسان کو حاصل ہے۔ آج جب سمندری جہاز کا ایک کپتان وسیع سمندر میں داخل ہو کر اِس ساحل سے اُس ساحل تک اپنا جہاز لے جاتا ہے۔ یا ہوائی جہاز کا پائلٹ ایک براعظم سے اڑ کر دوسرے براعظم میں اترتا ہے تو اس عمل کے پیچھے سینکڑوں سال کے انسانی تجربات کا علم شامل ہوتا ہے۔
اگلے صفحہ پر ہم ایک نقشہ دے رہے ہیں۔ یہ نقشہ چڑیوں کے بین براعظمی سفر کو بتا رہا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ روس اور دوسرے یورپی علاقوں کی چڑیاں کس طرح سرد موسم میں اپنے علاقے سے نکل کر افریقہ اور ایشیا کے گرم علاقوں کی طرف جاتی ہیں۔ اس لمبے سفر میں انھیں تین سمندروں سے واسطہ پیش آتا ہے — انھیں کیسپین سمندر (Caspian Sea) اور بحراسود (Black Sea) اور بحر متوسط (Mediterranean Sea) کو پار کرنا پڑتا ہے۔ یہ چڑیاں ایسا نہیں کرتیں کہ بے خبری کے عالم میں بس اپنے مقام سے اڑ کر کسی طرف بھی روانہ ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نہایت صحت کے ساتھ اس رخ کا تعین کرتی ہیں جو ان کے لیے موزوں ترین ہے۔ وہ نہایت صحت کے ساتھ عین وہ راستے اختیار کرتی ہیں جدھر سے جانے میں انھیں کم سے کم سمندر کے اوپر سے گزرنا پڑے۔ کیوں کہ خشکی پر بوقت ضرورت وہ نیچے اتر سکتی ہیں مگر سمندر میں اترنا ان کے لیے ممکن نہیں۔
اس نقشہ کو دائیں سے بائیں کی طرف دیکھیے۔ اس میں چڑیوں کا پہلا جھنڈ وہ ہے جو یورپ سے آتے ہوئے وہاں پہنچتا ہے جہاں ان کی راہ میں بحر کیسپین حائل ہے۔ یہاں وہ مڑ جاتی ہیں وہ بحرکیسپین کو کنارے چھوڑتے ہوئے ایک طرف قراقرم کی جانب سے اور دوسری طرف کاکیشیا کی جانب سے پرواز کر کے ایشیا میں داخل ہوتی ہیں اور اپنے مطلوبہ مقامات پر اتر جاتی ہیں۔
چڑیاں اس طرح کا کوئی ذریعہ علم نہیں رکھتیں ۔ وہ اس قسم کے ذریعہ معلومات سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہیں۔ چڑیوں کے اندر باہم تبادلۂ خیال نہیں ہوتا جس طرح انسانوں کے اندر ہوتا ہے۔ اس بنا پر چڑیوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ایک چڑیا دوسری چڑیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنی معلومات کو بڑھائے۔ کوئی چڑیا اپنی معلومات کو کتاب کی صورت میں قلم بند نہیں کرتی کہ دوسری چڑیا اس کو پڑھ کر اس سے رہنمائی حاصل کرے۔ اس قسم کی ہر سہولت سے کامل محرومی کے باوجود یہ چڑیاں بالکل انسانوں کی مانند سفر کرتی ہیں۔ وہ اس درجہ صحت کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتی ہیں جیسے کہ ریڈیائی کنٹرول کے ذریعہ کوئی راکٹ خلا میں چلایا جا رہا ہو۔
مہاجر چڑیوں کا مطالعہ کرنے والے ایک محقق نے لکھا ہے کہ چڑیوں کی ہجرت کی پروازیں متعین راستوں پر ہوتی ہیں۔ بعض اوقات لمبے فاصلوں پر حد درجہ عمدہ تعین کے ساتھ
The migration flights of birds follow specific routes, sometimes quite well defined over long distances (12/181).
افریقہ میں چڑیوں کی مہاجرت کا جو انداز ہے اس میں انوکھا انضباط پایا جاتا ہے۔ مثلاً بعض چڑیاں جو ایک مخصوص حلقہ میں گھونسلے بناتی ہیں جو خط استواء پر مغرب میں سینیگال اور مشرق میں کینیا تک پھیلا ہوا ہے ، وہ خاص وقتوں میں شمال کی طرف ہجرت کر جاتی ہیں تاکہ وہ بارش کے موسم سے بچ سکیں:
The migratory behaviour of birds has a unique regularity in Africa. The standard-wing night jar, which nests in a belt extending from Senegal in the west to Kenya in the east along the equatorial forest, migrates northward to avoid the wet season (12/180).
یہ چڑیاں ٹھیک یہی معاملہ بحرِاسود کے ساتھ بھی کرتی ہیں۔ چنانچہ ان کا جھنڈ یہاں پہنچ کر دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ان کا ایک حصہ بحراسود کے مغربی ساحل سے اور دوسرا حصہ مشرقی ساحل سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایشیائی علاقہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
ایک ماہر طیور نے لکھا ہے کہ یہ بخوبی طور پر الگ الگ راستے غالباً چڑیوں نے اس لیے اختیار کیے ہیں کہ وہ سمندر کے اوپر لمبی پرواز سے بچ سکیں :
These well-separated routes are probably a result of the stork's aversion to long flights over water (12/180).
اس کے بعد چڑیوں کے تیسرے جھنڈ کا منظر ہے۔ یہ چڑیاں بلغاریہ تک آ کر ترکی کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ پھر شام، لبنان ا ور فلسطین کے سا حلی علاقوں سے ہوتے ہوئے وہ سوئز تک پہنچتی ہیں۔ یہاں سے وہ مصر کی سرزمین میں داخل ہوتی ہیں اور پھر آگے افریقی علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔
چڑیوں کا چوتھا جھنڈ یونان کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جس کی خشکی لمبی نوک کی مانند بہت دور تک سمندر کے اندر چلی گئی ہے۔ یہ چڑیاں یونان اور کریٹ کی خشکی کا سہارا لیتے ہوئے سمندر میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ سمندر کا وہ مقام ہے جو سب سے کم چوڑا ہے۔ وہ اپنے طویل سفر میں سمندر کو عین اس نقطہ پر عبور کرتی ہیں جہاں جغرافی طور پر اس کی چوڑائی سب سے کم ہو جاتی ہے۔ چڑیاں اس راستہ کو واضح طور پر اس لیے اختیار کرتی ہیں کہ انھیں کم سے کم سمندر کے اوپر پرواز کرنا پڑے۔ یعنی عین وہی وجہ جس کی بنا پر قدیم زمانہ میں انسانی قافلے بیچ سمندر میں اپنی کشتی ڈالنے کے بجائے ’’آبنائے‘‘ کے مقام پر سمندروں کو عبور کیا کرتے تھے۔
چڑیوں کا پانچواں جھنڈ وہ ہے جو آگے بڑھ کر اٹلی کے راستے پر مڑ جاتا ہے۔ وہ اٹلی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے سسلی میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دائیں اور بائیں سمندر کو چھوڑتا ہوا لمبا راستہ خشکی کے اوپر اوپر طے کرتا ہے اور پھر سسلی کے ساحل سے سمندر میں داخل ہو کر افریقہ میں پہنچ جاتا ہے۔ دوبارہ عین اسی مقام پر جہاں سمندر کی چوڑائی سب سے کم تھی۔
چڑیوں کا چھٹا جھنڈ اس نقشہ میں فرانس کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور پھر وہ اسپین کی طرف مڑ کر خشکی کے اوپر اڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جبرالٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں وسیع سمندر صرف دس میل چوڑا رہ جاتا ہے۔ یہ چڑیاں سمندر کو عبور کرنے کے لیے اس موزوں ترین مقام کا انتخاب کرتی ہیں۔ وہ یہاں پہنچ کر سمندر میں داخل ہوتی ہیں اور آبنائے جبرالٹر کو پار کر کے افریقہ کی زمین پر اتر جاتی ہیں۔
چڑیوں کے یہ اسفار انتہائی حد تک حیرت انگیز ہیں۔ آج کا ایک انسان جب اس قسم کا طویل سفر کرتا ہے تو وہ بہت سے علوم سے مدد لیتا ہے۔ مگر چڑیوں کے اندر نہ انسانی ذہن ہے اور نہ علوم سے مدد لینے کا انتظام۔ پھر چڑیاں کیوں کر اس قسم کے پیچیدہ اسفار میں کامیاب ہوتی ہیں ۔ ایک ماہر طیور نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
Birds have evolved a highly efficient means for travelling swiftly over long distances with great economy of energy (12/179).
چڑیوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کے ارتقا یافتہ موثر ذریعے دریافت کر لیے ہیں تاکہ وہ لمبے فاصلوں پر کم سے کم طاقت خرچ کر کے بخوبی سفر کر سکیں۔ مگر یہ محض الفاظ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چڑیوں کے اندر یا ان کے حالات میں ہرگز ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جو یہ ثابت کریں کہ چڑیوں نے کسی ارتقائی عمل کے ذریعہ یہ صلاحیت اپنے اندر پیدا کی ہے۔
گہرائی کے ساتھ غور کیجیے تو اس معاملہ کی توجیہ کے لیے دو ہی ممکن مفروضے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان چڑیوں کو یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے جغرافیہ کا اور اس کی خشکی اور تری کا مکمل علم حاصل ہو۔ مگر کوئی بھی تحقیق ایسا ثابت نہیں کرتی۔ ہماری تمام معلومات کے مطابق چڑیاں بذاتِ خود کسی بھی قسم کے جغرافی علم سے قطعاً نابلد ہیں۔ اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا جاتا ہے وہ محض بے بنیاد قیاس ہے جس کے حق میں کوئی علمی شہادت موجود نہیں۔
اس کے بعد دوسرا ممکن مفروضہ صرف یہ ہے کہ کوئی ’’واقفِ جغرافیہ‘‘ ان کی رہنمائی کر رہا ہو۔ یہاں کوئی مخفی قسم کا ریموٹ کنٹرول ہو جو چڑیوں کو ٹھیک اسی طرح مسلسل رہنمائی دے رہا ہو جیسے ہمارے غیر انسان بردار راکٹ کو ریڈیائی کنٹرول کے ذریعہ دور سے رہنمائی دی جاتی ہے۔ یہی دوسری صورت زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ اس عقیدہ کو پوری طرح قابلِ فہم بنا دیتا ہے جس کو آسمانی مذہب میں وحی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جانوروں کی زندگی میں ایسے واقعات ہیں جن کی توجیہ اس کے بغیر نہیں ہوتی کہ یہ مانا جائے کہ ان کو ایک خارجی خزانۂ علم سے رہنمائی مل رہی ہے۔ اسی کا نام مذہبی زبان میں وحی ہے۔ جانوروں کی زندگی کا مطالعہ وحی کے معاملہ کو قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔ اور قرائن کے ذریعہ کسی چیز کا قابلِ فہم ہونا ہی کافی ہے کہ اس کی واقعیت و صداقت پر یقین کیا جائے۔
وحی کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے مخفی ذریعہ سے ایک انسان پر اپنی رہنمائی بھیجتا ہے۔ یہ رہنمائی بتاتی ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیے اورکیا نہیں کرنا چاہیے۔ خدا اور بندہ (پیغمبر) کے درمیان وحی کا یہ اتصال بظاہر دکھائی نہیں دیتا ، اس لیے کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں کر اسے مانیں۔
مگر دوسری مخلوقات ، مثلاً مہاجر چڑیوں کے سفر کے معاملہ پر غور کر نے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ’’وحی‘‘ کی نوعیت کی رہنمائی موجود ہے۔ ان چڑیوں کا حد درجہ صحت کے ساتھ سفر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو وحی کے معاملہ کو ہمارے لیے قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔ کیوں کہ چڑیوں کے ان اسفار کی کوئی بھی حقیقی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ مانا جائے کہ ان کو خارج سے کوئی مخفی قسم کی رہنمائی مل رہی ہے۔ جب چڑیوں کے اپنے اندر اس کے معلوم اسباب موجود نہیں ہیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کو خارج سے آنے والی چیز قرار دیا جائے۔
پیغمبر کا یہ دعویٰ کہ اس کو خدا کی طرف سے مخفی رہنمائی آتی ہے ، بلاشبہ عجیب ہے۔ مگر اس قسم کی مخفی رہنمائی موجودہ کائنات میں عجیب نہیں۔ یہاں دوسرے ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس قسم کی رہنمائی کائنات میں بطور واقعہ موجود ہے۔ مہاجر چڑیوں کا معاملہ ان بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے جس کو نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کیا گیا ہے۔