موت کے اس پار
ستارے اور سیارے کبھی اپنے مقررہ راستے سے نہیں بھٹکتے۔ درختوں اور پہاڑوں کے سامنے کبھی یہ مسئلہ نہیں آتا کہ وہ اپنی زندگی کے نظام کو کس طرح بہتر بنائیں۔ کسی جانور کو کبھی یہ سوال پریشان نہیں کرتا کہ وہ اپنی غیر حاصل شدہ تمنائوں کو کیسے پورا کرے۔ انسان کے سوا جتنی چیزیں اس کائنات میں ہیں، سب ویسی ہی ہیں جیسا کہ انھیں ہونا چاہیے۔ معلوم دنیا میں صرف انسان ہے جو اس احساس سے دو چار ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اس کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ موجودہ دنیا میں کبھی اس کا حصول ممکن ہے۔
ہمارے موجودہ دنیا کے درمیان اس تضاد کو ہمیشہ لوگوں نے محسوس کیا ہے۔ عام انسان صرف یہ سوچتا ہے کہ وہ بیماری، حادثہ، بڑھاپا، موت سے آزاد زندگی پائے مگر وہ اسے پا نہیں سکتا۔ علماء اور مفکرین زیادہ گہرائی تک جاتے ہیں اور زیادہ دور رس قسم کے ناموافق پہلوئوں کا انکشاف کرتے ہیں جو انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان فیصلہ کن طور پر حائل ہیں۔
انسان خلائوں کو ناپتا ہے اور اقتدار کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر وہ کس قدر عاجز اور حقیر ہے، اس کو ایک مثال میں دیکھئے۔ زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں، اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جا سکتا ہے جو طول و عرض اور بلندی میں ایک میل ہو۔ پھر اگر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جا کر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو وہ پانی کی گہرائی میں پہنچ کر گم ہو جائے گا۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر نسل انسانی دوبارہ زمین پر چلتی پھرتی دکھائی نہ دے گی۔ دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہو جائے گا کہ یہاں انسان کی قسم کی کوئی مخلوق آباد تھی۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح بدستور طوفان آتے رہیں گے، سورج اسی طرح چمکتا رہے گا۔ کرۂ ارض اپنے محور پر بدستور گھومتا رہے گا۔ کائنات کی لامحدود وسعتوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑےحادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی۔ مدتوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی۔
سر جیمز جینز(1877-1946) کائنات کی بے پناہ وسعت کے مقابلے میں انسان اور اس کے وطن(زمین) کی معمولی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ریت کے ذرہ کے ایک خوردبینی ٹکڑے پر کھڑے ہو کر ہم کائنات کی فطرت اور اس کے مقصد کو معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ زمان و مکان کے اندر ہمارے وطن(زمین) کو گھیرے ہوئے ہے۔ ہمارا پہلا تاثر کچھ دہشت ناک قسم کا ہوتا ہے۔ ہم کائنات کو دہشت ناک پاتے ہیں اس کے وسیع ناقابل فہم فاصلوں کی وجہ سے، دہشت ناک اس کے لامعلوم حد تک لمبے پھیلے ہوئے وقت کی وجہ سے جس کے مقابلے میں انسانی تاریخ محض پلک جھپکانے کے بقدر معلوم ہوتی ہے، دہشت ناک ہماری انتہا درجہ کی تنہائی کی وجہ سے، اور خلا میں ہمارے وطن کے مادی طور پر بالکل بے حقیقت ہونے کی وجہ سے— ساری دنیا کے سمندروں میں پائے جانے والے ریت کے ذروں میں سے ایک ذرہ کا دس لاکھواں حصہ۔ مگر ان سب سے بڑھ کر کائنات کو ہم اس لیے دہشت ناک پاتے ہیں کہ وہ ہماری جیسی ایک زندگی کے معاملہ میں غیر جانب دار ہے: خدمات، حوصلے، کامیابیاں، آرٹ اور مذہب، سب اس کے منصوبے میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ شاید ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہماری جیسی زندگی کی دشمن ہے۔ کیوں کہ خالی خلا کا بیشتر حصہ اس قدر سرد ہے کہ تمام زندگی اس کے اندر منجمد ہو جائے گی۔ خلا کے اندر مادہ کا بیشتر حصہ اس قدر گرم ہے کہ اس کے اوپر زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ خلا خم دار ہے اور فلکیاتی اجسام پر مسلسل مختلف قسم کی ریڈیائی بمباری ہوتی رہتی ہے، جن میں سے اکثر اغلباً زندگی کے لیے مخالف یا تباہ کن ہیں۔ اس قسم کی ایک دنیا میں ہم ٹپک پڑے ہیں، اگر غلطی سے نہیں تو کم ازکم اس چیز کے نتیجہ میں جس کو اتفاق کہا جا سکتا ہے‘‘(3)۔
سیاراتی نظام(جس میں ہماری زمین ہے) انتہائی نادر خلائی واقعہ ہے۔ سیاراتی نظام کا اس قدر نادر ہونا بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ زندگی کی جس قسم سے ہم زمین پر واقف ہیں، وہ زمین ہی جیسے کسی سیارہ پر وجود میں آ سکتی ہے۔ اس کو اپنے ظہور کے لیے موافق طبیعی حالات درکار ہیں جن میں سب سے اہم وہ ٹمپریچر ہے جس میں اشیاء رقیق شکل میں باقی رہ سکیں(4)۔
ان وجوہ سے یہ ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ابتدائی طور پر ہماری جیسی زندگی کے لیے بنائی گئی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر ہم میکانزم کے حجم اور پیداوار کی مقدار میں زیادہ بہتر تناسب کی توقع کر سکتے تھے۔ کم ازکم پہلی نظر میں زندگی غیر اہم ضمنی پیداوار دکھائی دیتی ہے۔ ہم زندہ لوگ شارع عام سے کچھ ہٹے ہوئے ہیں۔
We living things are some how off the main line. (p.5)
سائنس نے اب تک جو معلومات دی ہیں، ان کے مطابق ہم نہایت تعجب انگیز طور پر وجود میں آئے ہیں۔ اور ہماری حیرانی میں صرف اضافہ ہوتا ہے جب ہم اپنی ابتدا کے مسئلہ سے آگے بڑھ کر اپنے وجود کی معنویت کو سمجھنا چاہتے ہیں یا یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ قسمت نے مستقبل میں ہماری نسل کے لیے کیا چیز ذخیرہ کر رکھی ہے(صفحہ10)۔
فزکس اور فلکیات دونوں ایک ہی کہانی بتاتے ہیں۔ وہ یہ کہ کائنات کا صرف ایک ہی انجام ہو سکتا ہے۔ اور وہ ہے حرارتی موت(Heat Death)۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ اس آخری انجام تک پہنچنے کا راستہ کیا ہوگا۔ کائناتی موت کے سوااس سفر کا دوسرا کوئی انجام نہیں ہو سکتا۔
End of the journey cannot be other than universal death (p.11)
پھر کیا ایسا ہے کہ زندگی محض اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں بھٹک آئی ہے جو واضح طور پر زندگی کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ اور جو تمام مظاہر کے مطابق یا تو مکمل طور پر غیر جانب دار ہے یا قطعی طور پر اس کے مخالف۔ ایک ذرے کے محض ایک ٹکڑے پر ہمیں اس وقت تک چمٹے رہنا ہے جب کہ ہم منجمد ہو جائیں، اپنے مختصر اسٹیج پر مختصر تر لمحات کے لیے اکڑکر چلنا یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے تمام حوصلے بالآخر فنا ہو جانے والے ہیں، اور یہ کہ ہماری کامیابیاں ہماری نسل کے خاتمہ کے ساتھ ختم ہو جائیں گی، کائنات کے باقی رہتے ہوئے جہاں ہم موجود نہ ہوں گے(صفحہ12)۔
The Mysterious Universe (pp.3-1)
ان احساسات کا اظہار تاریخ کے ہر دور میں مختلف سوچنے والے لوگ مختلف انداز میں کرتے رہے ہیں۔ کریسی ماریسن(1884-1946ء) زندگی کا سائنسی مطالعہ کرتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
Whence it came or where it goes, science answers not. (p.42)
زندگی کب اس زمین پر آئی، زندگی کہاں جا رہی ہے، سائنس ہمیں اس کا کوئی جواب نہیں دیتی۔
آئن سٹائن (1879-1955ء) اپنے سائنسی علم کی روشنی میں جب انسان پر غور کرتا ہے تو اس کے پاس اس اقرار کے سواکوئی اور بات کہنے کے لیے نہیں ہوتی:
Man is out of plan. He has come where he was not wanted.
آدمی اس دنیا میں بے جگہ معلوم ہوتا ہے، وہ ایسے مقام پر آگیا ہے جہاں وہ مطلوب نہ تھا۔
انسان جو کچھ پانا چاہتا ہے۔ وہ موجودہ دنیا کے ڈھانچہ میں ممکن نہیں۔ انسان ابدی زندگی چاہتا ہے مگر اس کو ابدی دنیا نہیں دی گئی۔ وہ اپنے لیے ایک بہتر کل(better tomorrow) پیدا کرنا چاہتا ہے، مگر آنے والا کل اس کے لیے جو چیز لے کر آ رہا ہے، وہ حادثہ، بڑھاپا اور موت ہے۔ وہ ایک آزاد، برایوں سے پاک اور خوشیوں سے بھری دنیا دیکھنا چاہتا ہے، مگر ایسی دنیا اس زمین پر کسی طرح بننے نہیں پاتی۔
اب دو ہی متبادل قیاسات ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ زندگی، برٹرینڈرسل (1872-1970ء) کے الفاظ میں، نظام شمسی کے وسیع قبرستان میں اپنی تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ بالآخر ہمیشہ کے لیے دفن ہو جانے والی ہے۔ اس کے بعد مدفن(مادی دنیا) شاید کسی شکل میں باقی رہے مگر دفن ہونے والے(انسان) کا اس میں کہیں وجود نہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ موجودہ دنیا کے علاوہ یا اس کے بعد کوئی اور زیادہ مکمل دنیاہے جہاں انسان اپنے خوابوں کی زندگی کو پا سکتا ہے۔ موت اگلی وسیع تر زندگی کی طرف سفر ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ گویا ہمارے اور ہمای آرزوئوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بچہ اور انسان کے درمیان پائی جاتی ہے۔ بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں یہ آرزو لیے ہوئے بند رہتا ہے کہ وہ ایک وسیع کائنات کے اندر ایک پورے قد کا انسان بن کر ظاہر ہو۔ پیٹ کے اندر کی محدود دنیا میں یہ محض ایک موہوم خواب معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب وہ ایک دن ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اچانک وہ پاتا ہے کہ اس کا خواب ایک انتہائی حقیقی خواب تھا جو مکمل تعبیر کی صورت میں اس کے قریب ہی موجود تھا، اگرچہ پیٹ کے اندر رہتے ہوئے وہ اس کو براہ راست نہیں جان سکتا تھا یا کم ازکم نہیں جان سکا تھا۔
پہلے قیاس کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ وہ چیز جس کو ہم انسان کہتے ہیں، وہ صرف ایک جسم کا نام ہے جسم کی موت کے بعد لازمی طور پر’’انسان‘‘ کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ مگر اس مفروضہ کے حق میں کوئی قطعی دلیل اب تک قائم نہ ہو سکی۔ تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ مگر یہ دلیل اصل دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔ کیوں کہ موت کے دن جو’’انسان‘‘ جسم سے الگ ہوتا ہے، وہ موت سے پہلے بھی ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں ہوتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے سوچنے اور محسوس کرنے والے انسان کو دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم انسان کے صرف اس جسم کو دیکھتے ہیں جو نمکیات و معدنیات سے مل کر بنا ہے۔ ماورائے جسم انسان، جو موت کے دن خاموش ہو جاتا ہے، اس کو ہم مرنے سے پہلے بھی نہیں دیکھتے۔ پھر مرنے کے بعد اگر وہ دکھائی نہ دے تو اس سے اس کا عدم وجود کیسے ثابت ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ جدید سائنس یہ ثابت کر رہی ہے کہ مادہ جب’’فنا‘‘ ہوتا ہے تو وہ فنا نہیں ہوتا۔ بلکہ زیادہ حقیقی اور ترقی یافتہ شکل اختیار کر لیتا ہے، یعنی انرجی کی شکل۔
فلاسفہ و مفکرین موت کے بعد زندگی کے عقلی و منطقی ثبوت دیتے رہے ہیں۔ بعض ثبوت ان میں بجائے خود وزنی بھی ہیں۔ مثلاً فرد جاف شوان(Frithjof Schuan) کا یہ قول کہ روح جو دراصل ذہن یا شعور ہے اس کے غیر فانی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کا اختتام اپنے سے کم درجہ پر نہیں ہو سکتا، دوسرے لفظوں میں مادہ یا مادہ کا ذہنی انعکاس کی صورت میں۔ کوئی برتر چیز کم تر چیز کا محض فعل نہیں ہو سکتی۔ وہ اس چیز کا صرف ذریعہ نہیں ہو سکتی جس سے وہ بڑھ جاتی ہے:
One proof of immortality of the soul—which is essentially ntelligence or consciousness— is that the soul could not have an end beneath itself, in other words matter of the mental reflection of matter. The higher cannot be merely a function of the lower, it cannot be only a means in relation to what it surpasses.
Frithjof Schuon, Understanding Islam
تاہم، اپنی تمام تر معقولیت کے باوجود، اس قسم کے استدلالات قیاسی استدلالات تھے، اس لیے جدید ذہن کے لیے ان میں زیادہ اپیل نہ تھی۔ جدید ذہن حسی استدلال کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ اسی دلیل کو دلیل سمجھتا ہے جس کو وہ چھوئے، دیکھے اور تجربہ کرے۔ قیاسی منطق پر قائم ہونے والی دلیل اس کے نزدیک معتبر نہیں۔
مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے حیرت انگیز طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ قیاسی دلائل کے علاوہ خالص تجرباتی نوعیت کے شواہد بھی قائم زمانہ سے یہاں موجود تھے۔ مگر علمی اصولوں پر ان کا منظم مطالعہ نہیں کیا گیا اور بلاتحقیق یہ فرض کیا جاتا رہا کہ موت کے بعد زندگی کے حق میں کوئی تجرباتی دلیل موجود نہیں ہے۔
قرآن کی سورۃ الزمرمیں بتایا گیا ہے: اللہ موت کے وقت جانوں کو کھینچ لیتاہے۔ اور جن کے مرنے کا وقت نہیں آیا، ان کی نیند میں۔ پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر مرنا ٹھہرا دیا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد تک کے لیے رہا کر دیتا ہے(39:42)۔ قدیم ترین زمانہ سے خواب اس قرآنی بیان کی تصدیق کر رہے تھے۔ مگر قدیم زمانہ میں خواب کے فلسفیانہ پہلوئوں پر زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ موجودہ زمانہ میں جب ان کا علمی تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ واقعات، حیرت انگیز طورپر، یہ ثابت کر رہے ہیں کہ روح یا شعور جسم سے الگ ایک مستقل حقیقت ہے۔ وہ جسم سے الگ ہو کر بھی پوری طرح باقی رہتی ہے۔ خواب، موت کے بعد زندگی کو تجرباتی سطح پر ثابت کر رہے ہیں۔
عام تجربہ ہے کہ خواب میں ایک شخص دور کے کسی واقعہ کو یا مستقبل میں پیش آنے والے کسی حادثہ کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ تجربات جو تقریباً ہر شخص کو پیش آتے ہیں، ثابت کرتے ہیں کہ خواب کی حالت میں آدمی کا شعور موجودہ مادی دنیا سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں زمان و مکان کی حد بندیاں نہیں پائی جاتیں۔ نیند کے وقت سونے والے آدمی پر جو بے خبری طاری ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روح، جزوی طور پر، اس کے جسم کو چھوڑ دیتی ہے۔ وہ انسان کی محدود دنیا سے نکل کر خدا کی ابدی دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔
راقم الحروف کی لڑکی فریدہ خانم(پیدائش1952ء) نے 24 جنوری1971ء کو دہلی میں خواب دیکھا کہ اس کے بھائی ظفر الاسلام خاں(پیدائش1948ء) نے اس کے لیے دس روپے بھیجے ہیں۔ یہ خواب انتہائی غیر معمولی تھا۔ کیوں کہ خواب دیکھنے والی کے بھائی1966ء سے قاہرہ میں تھے۔ اور باہر سے کوئی بھائی اپنی بہن کو’’دس‘‘ روپئے بھیجے، یہ کسی طرح قابل قیاس نہیں ہو سکتا۔ مگر چند ہی روز بعد ظفر الاسلام کا لفافہ قاہرہ سے ملا جس کے اندر دس روپے کا ایک ہندستانی نوٹ رکھا ہوا تھا۔ ظفر الاسلام کو یہ نوٹ قاہرہ میں اپنے بکس میں پڑا ہوا ملا۔ چونکہ عرب دنیا میں یہ نوٹ ان کے لیے بے کار تھا، انھوں نے ہندستان میں اپنی بہن کو خط بھیجتے ہوئے اس کو لفافہ میں ڈال دیا— اس کی توجیہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی کہ نیند کی حالت میں آدمی کی روح جسمانی محدودیتوں سے آزاد ہو کر ایک بلند تر آفاقی سطح حاصل کر لیتی ہے۔ اس وقت وہ اشیاء کو ایسے مقام سے دیکھنے لگتی ہے جہاں وہ اپنی جسمانی قیام گاہ کی حد بندیوں سے نہیں دیکھ سکتی۔
اس طرح سویا ہوا آدمی خواب میں بعض اوقات کسی مرے ہوئے شخص کو دیکھتا ہے۔ یہ مردہ شخص اپنے زندہ ساتھی کو خواب میں ایسی باتیں بتاتا ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ شخص اب بھی پورے شعور کے ساتھ موجود ہے، اور خواب دیکھنے والے کی فی الواقع اس سے ’’ملاقات‘‘ ہوئی ہے۔ گویا سوئے ہوئے آدمی کے شعور کی سطح، ایک خاص حد تک، مرے ہوئے آدمیوں کے شعور کی سطح کے برابر ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر، نیند کی حالت میں آدمی، محدود معنوں میں، زندگی بعد موت کا تجربہ کرتا ہے۔ نیند کی حالت، جزوی طور پر موت کی حالت کے مشابہ ہے۔
ڈاکٹر کیسل نے شمالی کیرولینا کے ایک امیر شخص کے واقعہ کی تحقیق کی ہے۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ وہ کسی بات پر تین لڑکوں سے ناراض ہوگیا اور ایک وصیت نامہ کے ذریعہ اپنے ان تین لڑکوں کو جائیداد میں حصہ دار بننے کے حق سے محروم کر دیا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے جلد ہی بعد اس کے چوتھے لڑکے نے، جس کو ازروئے وصیت جائیداد مل رہی تھی، اپنے باپ کو خواب میں دیکھا۔ خواب میں اس کے باپ نے اپنی پسندیدہ برساتیوں میں سے ایک برساتی اوڑھ رکھی تھی۔ وہ سراپا احتجاج دکھائی دیتا تھا اور دوران گفتگو بار بار برساتی نما کوٹ کی اندرونی جیب کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ نیند کھلی تو لڑکے نے اپنے باپ کی اس کوٹ کو، جو اس نے خواب کے درمیان پہن رکھا تھا، نکالا اور اس کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ جیب میں باپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک وصیت نامہ موجود تھا۔ اس کے تحت پچھلی وصیت کو منسوخ کرتے ہوئے بقیہ تینوں لڑکوں کو بھی حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنے حصہ کی جائیداد وصول کر سکتے ہیں۔ باپ نے موت سے تھوڑی دیر پہلے جائیداد کی وراثت کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔ اس نے دوبارہ اپنا وصیت نامہ تیار کرایا اور اس کو مکمل کرکے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈال لیا۔ پھر اس سے پہلے کہ اپنے تمام لڑکوں کو اس تبدیلی فیصلہ سے آگاہ کرے، انتقال کر گیا— ظاہر ہے کہ اس واقعہ کو مردہ شخص کے سوا کوئی اور نہیں جانتا تھا۔ اس لیے یقین کرنا پڑے گا کہ وہ مرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ تھا اور اس نے اپنے لڑکے کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
نیند ہی سے ملتا جلتا وہ واقعہ ہے جب کہ حادثہ وغیرہ کے موقع پرایک شخص وقتی طور پر’’مر جاتا ہے‘‘ اور پھر کچھ دیر بعد جی اٹھتا ہے۔ قدیم زمانہ سے اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ ایک شخص طبی اعتبار سے مکمل طور پر مر گیا۔ چند منٹ بعد پھر اس کے قلب کی حرکت جاری ہوگئی۔ وہ دوبارہ’’زندہ‘‘ ہوگیا۔ اس قسم کے واقعات بظاہر اس بات کا ثبوت ہیں کہ’’آدمی‘‘ نے کچھ لمحات کے لیے اپنا جسم چھوڑ دیا تھا اور پھر دوبارہ اپنے جسم میں واپس آگیا۔ قدیم زمانہ میں ان واقعات کا ذکر صرف عجوبہ کے طور پر کیا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں ان کو علمی اندازہ سے جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ ان سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسان، جسم کے ماورا اپنی ایک مستقل ہستی رکھتا ہے جو اس وقت بھی باقی رہتی ہے جب کہ وہ اپنے دنیوی جسم سے الگ ہوگیا ہو۔
بعض ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں کہ ایک بیمار شخص آپریشن ٹیبل پر تھا، آپریشن کے دوران اس کے دل کی حرکت بند ہوگئی۔ طبی طور پر وہ مر گیا۔ کچھ دیر بعد اس کو ہوش آیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ’’موت ‘‘کے دوران تم نے کیسا محسوس کیا۔ اس نے بتایا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے جسم سے الگ ہو کر فضا میں تیر رہا ہوں۔ میں فضا سے اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا جو آپریشن ٹیبل پر پڑا ہوا تھا اور اس کے گرد ڈاکٹر جھکے ہوئے تھے۔ اس نے اس دوران میں ہونے والی ڈاکٹروں کی بعض باتوں کو اس طرح بتایا جیسے کہ وہ’’موت‘‘ کے وقت بھی ان کو دیکھ اور سن رہا تھا— روح اگر محض ایک جسم کا عمل(function) ہو تو وہ جسم سے الگ ہو کر کیسے اس طرح باقی رہ سکتی ہے۔ جسم سے الگ ہو کر بھی شعور ذات کا ختم نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان ایک مستقل ہستی ہے جو جسم سے علیحدگی کے بعد بھی پوری طرح باقی رہتا ہے۔
ڈاکٹر گرفیلڈ بتاتے ہیں کہ میں ایک بوڑھی عورت کا معائنہ کر رہا تھا۔ یہ عورت ہڈی کے کینسر کی مریض تھی۔ اس کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔ ہم نے مریضہ کے درد کو دور کرنے کی جتنی تدبیریں کیں سب بے سود ثابت ہوئیں۔ اچانک وہ بے ہوش سی ہوگئی۔ اس کے بعد جب ہوش میں آئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کو بہت افاقہ ہوگیا ہو۔ میں نے عورت سے اس کی اچانک تبدیلی کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ابھی اس کی مردہ ماں اس سے ملنے آئی تھی اور اس کو بتا گئی ہے کہ بہت جلد دونوں اکٹھا ہو جائیں گی۔ اپنی ماں سے اس گفتگو کے بعد وہ بہت پرسکون ہوگئی اورتھوڑی دیر کے بعد مر گئی__ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ مریضہ کی ماں، اپنی موت کے بعد بھی پورے شعور کے ساتھ موجود تھی۔ ورنہ کس طرح وہ اپنی بیٹی کے پاس آتی۔ نیز ماں کی خبر کے مطابق ٹھیک وقت پر اس کا مر جانا ثابت کرتا ہے کہ مریض کا تجربہ حقیقی تھا نہ کہ محض خیالی۔
قرآن کی سورۃ الواقعہ میں ارشاد ہوا ہے: جب مرنے والے کی جان حلق تک آ جاتی ہے اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم مرنے والے کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ مگر تم نہیں دیکھتے(56:83-85)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی جب مرنے کے قریب ہوتا ہے تو جان کی جسم سے علیحدگی سے پہلے موت کے اس پار کی بعض کھڑکیاں اس پر کھول دی جاتی ہیں۔ دوسری دنیا کا پردہ ایک خاص حد تک، اس سے ہٹا لیا جاتا ہے۔ موجودہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ عالم آخرت کی بعض چیزوں کو دیکھنے لگتا ہے۔
ان میں سب سے عام اور کثیر الوقوع مشاہدہ اپنے مردہ عزیزوں کو دیکھنا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب کہ آدمی نزع کے عالم میں پہنچ گیا ہو۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ نزع کے وقت آدمی اپنے مرے ہوئے رشتہ داروں کو پکارنے لگتا ہے۔ اپنے مرے ہوئے اعزہ اوردوستوں کو وہ اس طرح آواز دیتا ہے جیسے وہ اس کے قریب کھڑے ہوں۔ راقم الحروف کی بڑی بہن طاہرہ خانم کا انتقال تقریباً60 سال کی عمر میں21 اگست1976ء کو ہوا۔ اس وقت وہ اعظم گڑھ کے اسپتال میں تھیں۔ انتقال کے وقت میں خود بہن کے پاس موجود نہ تھا۔ تاہم میری والدہ زیب النساء خاتون نے مجھے بتایا کہ آخر وقت میں مرحومہ کی زبان سے یہ کلمات سنے گئے۔’’ابا اتنی دیر سے کھڑے ہیں کوئی ان کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہتا۔‘‘ ہمارے والد کا انتقال 1929ء میں ہو چکا ہے۔ اس لیے لوگوں کو یہ سن کر تعجب ہوا۔ مرحومہ کی لڑکی نے کہا:’’ابا یہاں کہاں ہیں۔‘‘ مرحومہ نے دوبارہ کہا:’’ وہ کیا سامنے کھڑے ہیں‘‘ اور پھر چند لمحہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
ڈاکٹر الزبتھ کیوبلر روز نے بطور مہم یہ کام شروع کیا کہ وہ نزع میں گرفتار لوگوں سے ملیں اور آخر وقت میں ان کی آوازوں کا ٹیپ لیں۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ ایسے لوگوں کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا جو عالم نزع میں گرفتار تھے۔ اور گویا موجودہ دنیا اور اگلی دنیا کے درمیان پہنچ چکے تھے۔ ان لوگوں نے انھیں بتایا کہ نزع کی حالت میں ان کے کئی ایسے دوست اور رشتہ دار ان کے پاس آئے جو پہلے مر چکے تھے۔’’تاکہ سفر آخرت کے وقت ان کی امداد کر سکیں‘‘۔ یہ لوگ اگر اس دنیا میں اپنے بدن کے کسی عضو سے محروم تھے تو نزع کی حالت میں انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا بدن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ مثلاً جو شخص لنگڑا تھا اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دونوں پائوں صحیح و سالم موجود ہیں۔ گویا جسم میں کسی حادثہ سے کمی واقع ہو جائے تو اس کی وجہ سے اصل انسانی ہستی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
اس قسم کے خواب اور واقعات اگرچہ ہمیشہ سے پیش آ رہے تھے۔ مگر موجودہ زمانہ میں پہلی بار ان کا منظم مطالعہ کیا گیاہے، ضروری اعدادوشمار کے ساتھ ہزاروں واقعات جمع کیے گئے ہیں خاص طور پر امریکا میں جدید ترین ٹیکنیک اور سائنسی اہتمام کے ساتھ ان کا باقاعدہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان تحقیقی نتائج پر متعدد کتابیں چھپی ہیں۔ حال میں امریکا سے ایک کتاب چھپی ہے جس کانام ہے زندگی کے بعد زندگی:
Life After Life, Dr. Raymond A Moody Jr., U.S.A., 1976.
یہ کتاب آج کی انتہائی کثیر الاشاعت کتابوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات و رسائل میں، جدید دور میں پہلی بار، زندگی بعد موت سے متعلق سرخیاں نظر آنے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں تحقیقی کتابوں کے خلاصے شائع کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً نیوز ویک12 جولائی1976ء السٹرٹیڈویکلی آف انڈیا مارچ1977ء، ریڈرز ڈائجسٹ اگست 1977ءوغیرہ۔ ایک امریکی میگزین (ٹائم7 جنوری1974ء) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’موت‘‘ کا موضوع اور موت کے بعد زندگی کا مسئلہ اچانک طور پر امریکا کا بہت زیادہ مقبول عام موضوع بن گیا ہے۔ اجتماعات میں اب موت کا موضوع جنس اور سیاست جیسے سدا بہار موضوعات سے تجاوز کرنے لگا ہے۔ کتابوں کی ایک نئی قسم وجود میں آگئی ہے جس کو عالم الموت (thanatalogy) کی کتابیں کہا جاتا ہے۔
آرتھر کوئسلر(Arthur Koestler) پہلے مارکسسٹ تھے، مگر اب وہ اس حد تک بدل چکے ہیں کہ انھوں نے ایک طویل محققانہ مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے’’کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے‘‘(Is there life after death?)۔
موجودہ صدی کے ربع ثانی میں آئن سٹائن، ڈی بروگلی، شروڈنگر اور ہیزن برگ نے کامیاب طور پر مادہ کا غیر مادہ ہونا ثابت کیا ہے۔ جو چیز دیکھنے میں ٹھوس جسم نظر آتی ہے، وہ انرجی(قوت) کا صرف ایک شدید اجتماع ہے۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ مادہ کے اجزاء— الیکٹران، پروٹان، نیوٹران وغیرہ — معروف معنوں میں مادی ذرات نہیں ہیں بلکہ وہ لہروں کی مانند ہیں۔ ڈی بروگلی کاکہنا ہے کہ ایک الیکٹران بیک وقت جسمیہ بھی ہے اور لہر بھی۔ ثنویت(dualism) جدید طبعیات کا لازمہ ہے اور (principle of complementarity) یعنی تکمیلی اصول اس کا جدید سائنسی نام ہے(سنڈے،کلکتہ، 3اکتوبر 1976ء)۔
ان دریافتوں کا حوالہ دیتے ہوئے آرتھر کویسلر(Arthur Koestler) نے لکھا ہے کہ — ذرہ/ لہر (particle/wave) کے اصول کو مان لینے کے بعد جسم/ ذہن (body/mind) کے اصول کو ماننا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ تکمیلی اصول کو مان لینے کے بعد دوسری جگہ اس کو نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جب مادہ اپنے آپ کو لہروں میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس طرح ایک خاص غیر جسمانی انرجی (disembodied energy)بن جاتا ہے تو کیا اب بھی یہ خالی ازمعنی ہوگا کہ بے جسم ذہن (discarnat mental energy) کی موجودگی کی بات کی جائے۔ کیا ایسی گفتگو اب بھی اسی طرح بے حقیقت ہے جس طرح وہ پچاس سال پہلے معلوم ہوتی تھی جب کہ طبیعیات نے ابھی مادہ کی حیثیت کو ختم نہیں کیا تھا اور ابھی ہم کو بتایا نہیں تھا کہ ایٹم’’چیز‘‘ نہیں ہیں، اور کیا اب بھی یہ معقول بات ہوگی کہ کوئی شخص ذہنی مادہ(mind- stuff) کی اصطلاح کو غیر سائنسی کہہ کر مذاق اڑائے جس کو اڈنگٹن نے وضع کیا تھا۔ ڈاکٹر آئی جے گڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مادہ اثیری ہے اور ذہن ٹھوس چٹان ہے:
Matter is athereal and mind is the solid rock.
موت کے بعد زندگی کا ثبوت ہی یہ بھی ثابت کر دیتا ہے کہ موجودہ نظر آنے والی دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے۔ اگر ایسی کوئی دنیا نہیں ہے تو یہ غیر مرئی انسانی ہستیاں کہاں واقع ہیں۔ لوگ اپنے جسم کو چھوڑ کر کہاں چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اس طرح بندھی ہوئی ہیں کہ ایک کا ثابت ہونا اپنے آپ دوسرے کو ثابت کر دیتاہے۔
قرآن میں کہا گیا ہے: اور ہر چیز کو ہم نے بنایا جوڑا جوڑا۔ تاکہ تم دھیان کرو (51:49)۔ اس آیت میں اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا کا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ ہر چیز جوڑے کی صورت میں ہے(نر مادہ، مثبت منفی، رات دن)۔ ایک جزء اپنے دوسرے جزء سے مل کر اپنے کو مکمل کرتا ہے۔ یہ اس لیے تاکہ لوگ سمجھیں کہ جس طرح ہر چیز کا جوڑاہے اسی طرح اس دنیا کے لیے بھی جوڑا ہونا ضرور ہے۔ یہ جوڑا آخرت ہے۔ آخرت کے بغیر دنیا موجودہ تخلیقی نظام کے مطابق کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔
آج دنیا کایہ جوڑا انسانی علم میں آ چکا ہے۔ اس جوڑے کا سائنسی نام اینٹی ورلڈ ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک طرف انسان کا مطالعہ موت کے بعد انسانی ہستی کے بقا کا تجربہ کرا رہا تھا، دوسری طرف عین اسی وقت طبیعی سائنس یہ ثابت کررہی تھی کہ ہمارے موجودہ دنیاکے متوازی ایک اور دنیا ہے جو مکمل شکل میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ ہماری موجودہ دنیا ورلڈ ہے اور وہ اینٹی ورلڈ۔
1928ء تک طبیعیات داںیہ سمجھتے تھے کہ تمام ایٹم صرف دو قسم کے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ مثبت برقی چارج رکھنے والے پروٹان، اور منفی برقی چارج رکھنے والے الیکٹران، مگر اسی سال پال ڈیراک(Paul A.M. Dirac) نے ایک نئے قسم کے ذرہ کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا۔ اس نے کہا’’اس کا مقدار مادہ الیکٹران جیسا ہے۔ مگر وہ اس کے مخالف برقی چارج رکھتا ہے۔ ہم اس ذرہ کواینٹی الیکٹران کہہ سکتے ہیں۔‘‘1932ء میں اینڈرسن(K. Anderson) نے اس اینٹی الیکٹران کو کاسمک شعاعوں میں دریافت کر لیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم کے ہر پارٹیکل کا ایک اینٹی پارٹیکل ہے۔ پروٹان ایک اینٹی پروٹان رکھتا ہے، نیوٹران ایک اینٹی نیوٹران رکھتا ہے۔ گویا کائنات کے تمام ذرات، جوڑوں(pair particles) کی صورت میں ہیں۔
اب سائنسی فکر آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ عالم مادی میں جوڑوں کی یہ تقسیم الیکٹران کے ناقابل مشاہدہ ذرات سے شروع ہو کر خود مجموعہ عالم تک پہنچ جاتی ہے — الیکٹران کا اینٹی الیکٹران ہے، ایٹم کااینٹی ایٹم، میٹر کا اینٹی میٹر، حتیٰ کہ ورلڈ کا اینٹی ورلڈ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہماری دنیا میں تمام اینٹی پارٹیکل غیر قائم(unstable) حالت میں ہیں۔ مگر اینٹی ورلڈ میں وہ سب قائم(stable) حالت میں ہوں گے۔ کیوں کہ تمام ایٹموں کے نیوکلیس منفی برقی چارج رکھتے ہوں گے اور تمام الیکٹران مثبت برقی چارج۔ اس قسم کے ایک اینٹی ورلڈ کا امکان پہلی بار1933ء میں ڈیراک نے اپنے لکچر میں بتایا تھا۔ اب سائنس داں عام طور پر اس کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں۔ سوویت یونین کے ڈاکٹر گسٹاف نان(Gustav Nasn) نے ریاضیات کے ذریعہ اس ا ینٹی ورلڈ کی ایسی ٹھوس احاطہ بندی کر دی ہے کہ اب اس کے مخالفین تک اس کو انتہائی زبردست قسم کا متوازن تصور ماننے لگے ہیں۔
اپنی دنیا میں دور کی چیزوں کو ہم فوٹان کی مدد سے پہچانتے ہیں جو کہ برقی مقناطیسی شعاعوں کے ذرات ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اینٹی ورلڈ بھی اسی قسم کے فوٹان کا اخراج کرتی ہوگی جو کہ بیک وقت پارٹیکل بھی ہے اور اینٹی پارٹیکل بھی۔ اینٹی ورلڈ، وہ دور ہو یا نزدیک، اس کی روشنی فوٹان کی شکل میں ہو سکتا ہے کہ مسلسل ہم تک پہنچ رہی ہو۔ مگر ہم اس کو اپنے پازیٹو ورلڈ کی چیزوں کی روشنی سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ کیا دونوں کے درمیان کوئی مواصلاتی سلسلہ ہے جس کے ذریعہ ہماری دنیا اینٹی ورلڈ سے تعلق قائم کرتی ہے۔ سائنس دانوں کا جواب اثبات ہے۔ ڈاکٹر نان کا خیال ہے کہ بلیک ہول اور وائٹ ہول کو ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کے درمیان ایک مقامی واسطہ(local channels) سمجھنا چاہیے۔
بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اینٹی ورلڈ ہم سے الگ اور ہماری دنیا کے متوازی اپنا وجود رکھتا ہے تخلیق کے بارے میں عظیم دھماکہ(big bang) کا نظریہ فرض کرتا ہے کہ 10سے20 بلین سال پہلے سارا مادہ منجمد حالت میں ابتدائی ایٹم کی صورت میں تھا اور فوٹان انرجی پر مشتمل تھا۔ قیاس ہے کہ فوٹان، ایک عظیم دھماکہ کے ساتھ میٹر اور اینٹی میٹر کی صورت میں مجتمع ہوگئے اور ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کو بنانے کے لیے الگ الگ ہوگئے۔ اسی بنیاد پرہینز الفوین(Hannes Alfven) نے 1963ء میں تفریقی میکانزم (separation mechanism) کا امکان ظاہر کیا جس کے ذریعہ ایک ہی کہکشاں میں میٹر اور اینٹی میٹر دونوں موجود رہتے ہیں۔
سائنس یہاں پہنچ کر خاموش ہو جاتی ہے اور اسے خاموش ہو جانا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا دائرۂ تحقیق صرف وہ واقعات ہیں جو قانون طبیعی کے تحت ظہور میں آتے ہیں۔ ماورائے طبیعات چیزوں کے بارے میں وہ ہمیں کوئی قطعی بات نہیں بتا سکتی۔ تاہم اس نے یہ تسلیم کرکے ہمارے لیے مزید تحقیق کا دروازہ کھول دیا ہے کہ استنباط(inference) بھی ایک جائز ذریعہ علم ہے بشرطیکہ وہ ثابت شدہ واقعات کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ اس اصول کی روشنی میں اگر ہم یہ استنباط کریں کہ دوسری دنیا، جہاں مرنے کے بعد انسان پہنچ رہا ہے، غالباً وہی ہے جس کو سائنس نے اینٹی ورلڈ کا نام دیا ہے تو خالص علمی اعتبار سے اس کو نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔
موجودہ معلوم دنیا میں جو صورت حال ہے، وہ بھی یہی ہے۔ سائنس کی پہنچ دنیا کے کمیاتی پہلوئوں تک ہے۔ کیفیاتی پہلو اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ سائنس ہمیں پھول کی خبر دیتی ہے، مگر وہ خوشبو کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ وہ ہمیں اشیاء کا پتہ دیتی ہے مگر ان کے حسن سے ہمیں مطلع نہیں کرتی۔ وہ انسان سے ہمارا تعارف کراتی ہے مگر انسانی شعور کے بارے میں اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ ہمیں’’اینٹی ورلڈ‘‘ کی خبر دے مگر اس کی’’خوشبو‘‘،اس کے’’حسن‘‘، اس کے’’شعور‘‘ کو بتانے سے عاجز رہے تو اس پر ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیے۔ یہ خلا ہم اپنے استنباط کے ذریعے اسی طرح پر کر سکتے ہیں جس طرح ہم موجودہ معلوم دنیاکے بارے میں آج بھی کر رہے ہیں۔