دماغ ایک نشانی
آدمی کو روزانہ نیند آتی ہے اور وہ سو جاتا ہے۔ اس کو وقت پر بھوک لگتی ہے اور وہ کھانا کھاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ عام تجربہ ہے جو ہر انسان کو پیش آتا ہے ، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک عام تجربہ ہے کہ دماغ کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو نیند اور بھوک دونوں اڑ جاتی ہیں۔ اب رات آتی ہے مگر آدمی سو نہیں پاتا۔ کھانے کا وقت آتا ہے مگر اشتہا نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کھانا کھائے۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس پورے معاملہ کا تعلق دماغ سے ہے۔ انسان کا جسم بظاہر اسباب کا ایک نظام ہے۔ مگر یہ نظام دماغ کے حکم کے تحت عمل کرتا ہے۔ دماغ حکم دیتا ہے کہ نیند آئے اس وقت آدمی کو نیند آتی ہے۔ دماغ حکم دیتا ہے کہ بھوک لگے اس وقت آدمی کو بھوک لگتی ہے اور وہ کھاناکھاتا ہے۔ جب دماغ کسی ناگہانی سبب سے منتشر ہو جائے تو وہ اپنے معمول کے احکام نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں جسم کانظام معطل ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی واقعہ چھوٹی سطح پر زیادہ بڑے واقعہ کا نمونہ ہے۔ یہ خدا کی خدائی کو سمجھنے میں ہماری مدد کررہا ہے۔
دماغ کا جو تعلق جسم سے ہے، وہی تعلق خدا کا پوری کائنات سے ہے۔ کائنات بظاہر ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا ڈھانچہ اسباب و علل کا ایک کارخانہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر ان سب کے اوپر ایک برتر دماغ ہے اور وہ خدا وندِ عالم کی ذات ہے۔ دنیا کا ہر واقعہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ خدا اس کا حکم دے۔ رات اور دن کا آنا ، فصل کا اُگنا ، بارش کا برسنا، زندگی اور موت کے واقعات سب کے سب براہِ راست خدا کی طرف سے کنٹرول ہو رہے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں یہ پورا کا پورا كُنْ فَيَكُونُ کا نظام ہے۔یعنی، خدا جس چیز کو کہتا ہے کہ ہو، وہ ہو جاتی ہے۔ اور خدا جس چیز کے ہونے کا حکم نہیں دیتاوہ نہیں ہوتی (البقرہ،2:117)۔
موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں کے مادی واقعات معنوی حقیقتوں کی تمثیل بن گیے ہیں۔ دماغ اور جسم کا تعلق خدا اور کائنات کے تعلق کی تمثیل ہے۔ آدمی اگر چاہے تو خود اپنی ذات میں خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ نہ چاہے تو ساری کائنات بھی اس کو معرفت تک پہنچانے کے لیے کافی نہیں۔