تبصرہ
یہ صورت حال جو غیر مسلم اقوام میں پیدا ہوئی ہے یہی خود مسلمانوںمیں بھی پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر بھی دین کی طرف ازسرنو رجوع پیدا ہوا ہے، مگر اس رجوع کا تعلق کسی عہد ساز مفکر یا کسی خدا رسیدہ بزرگ سے نہیں ہے،یہ تمام تر ایک زمانی مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قوم میں یکساں طور پر پیدا ہوا ہے۔ مسلمان ، ہند و ، سکھ، عیسائی ، یہودی ، بدھسٹ وغیرہ سب کے یہاں اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک مذہب اور دوسرے مذہب کا کوئی فرق نہیں۔
اس نئی صورت حال کی وجہ مغربی انسان کی وہ مایوسی ہے جو اس کو موجودہ صدی میں پیش آ رہی ہے۔ بیسویں صدی عقلیت اور سائنس کی صدی تھی۔ جدید انسان کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اپنی عقل اور اپنی سائنس سے وہ سب کچھ حاصل کر لے گا جس کی امید پہلے صرف مذہب سے کی جاتی تھی۔ مگر اس کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ انسان کی عقلیت نے اس کو صرف بے یقینی تک پہنچایا اور اس کی سائنس ایٹمی جنگ کا سیاہ بادل بن کر اس کے سر پر منڈلانے لگی۔ چوں کہ لوگوں کے سیکولر خدا ناکام ہو گئے، اس لیے لوگوں نے روایتی خدا کی طرف زیادہ توجہ کے ساتھ دیکھنا شروع کر دیا۔
اس طرح موجودہ صورتحال نے ہمارے لیے ایک نیا امکان کھولا ہے۔ اس نے خدا کے محفوظ دین (اسلام) کی تبلیغ و اشاعت کاایک نیا موافق میدان پیدا کر دیا ہے۔ آج کا انسان خدا اور مذہب کی تلاش میں نکلا ہے۔ مگر یہ تمام تر فطرت کے زور پر ہے۔ موجودہ مذاہب تحریف ہو جانے کی بنا پر اس کی تلاش کا حقیقی جواب نہیں ہیں۔ یہاں ضرورت ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ جس مذہب کی تمہیں تلاش ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں موجود ہے۔ اسلام اسی مذہب کا غیر محرف ایڈیشن ہے جس کو تم محرف مذاہب میں ناکام طور پرتلاش کر رہے ہو۔
دنیا کے موجودہ حالات دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو لا کر اپنی رحمت کے دروازہ پرکھڑا کر دیا ہے۔ وہ لوگوں کو مجبور کر کے انھیں دین حق میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمان سے لوگوں کی ہدایت اتر چکی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم حق کو طالبانِ حق تک پہنچا دیں۔