تبصرہ
پچھلی صدیوں میں یہ سمجھ لیا گیاتھا کہ خدا کا وجود محض ایک ذاتی عقیدہ کی چیز ہے۔ اس کا علمی طرز فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلسل ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ انسان یہ ماننے پر مجبور ہو رہا ہے کہ خدا کا وجود ایک علمی و عقلی نظریہ ہے نہ کہ محض ایک بے دلیل عقیدہ۔
مگر سائنسی مطالعہ آدمی کو صرف اس مجرد حقیقت تک پہنچا رہا ہے کہ خدا کا وجود ہے۔ اس کے آگے یہ سوال ہے کہ خدا جب ہے تو اس کا انسان سے کیا تعلق ہے۔ مگر سائنس اس کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں دیتی اور نہ دے سکتی ہے۔ یہ دراصل وہ مقام ہے جہاں سے مذہب کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔
اصولی طور پر تمام مذاہب اس سوال کا جواب ہیں۔ مگر مذاہب کی موجودہ صورت بتاتی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں۔ کوئی مذہب اس لیے باطل قرار پاتا ہے کہ اس میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کسی کا حال یہ ہے کہ وہ کئی خدائوں کا مدعی ہے۔ حالاں کہ تمام علوم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ خدا اگر ہو سکتا ہے تو ایک ہو سکتا ہے۔ کئی خدا کا ہونا ممکن نہیں۔ کسی مذہب کے نظام میں ایسے نظریات جگہ پا گئے ہیں جن کو انسانی ضمیر کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ مثلاً انسانوں کے درمیان رنگ اور نسل کی بنا پر فرق۔ اسی طرح دوسری باتیں۔
علمی حقائق انسان کو خدا تک پہنچا رہے ہیں اور خدا کو ماننے کے بعد اسلام کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جب علمی مطالعہ یہ بتا رہا ہو کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے تو بے خدا مذاہب اپنے آپ باطل ثابت ہو جاتے ہیں۔ جب کائناتی تحقیق یہ بتائے کہ اس کا پورا نظام ایک وحدت کے تحت چل رہا ہے تو ایسے مذاہب بے معنی ہو جاتے ہیں جو کائنات کے کئی خدا مانتے ہوں۔ ایسی حالت میں آدمی مجبور ہے کہ وہ اسلام کو اپنا مذہب بنائے جو نہ صرف خدا کے صحیح تصور پر مبنی ہے بلکہ واضح طور پر یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے۔