آخری بات
نئی دہلی میں جنتر منتر روڈ سے گزرنے والا ایک عجیب و غریب طرز کی عمارت دیکھتا ہے جس کا نام’’جنتر منتر‘‘ ہے۔ اسی کے اوپر سڑک کا نام جنتر منتر روڈ رکھا گیا ہے۔ جنتر منتر دراصل پرانے زمانہ کی رصد گاہ ہے جس کو اٹھارویں صدی کے نصف اول میں جے پور کے راجہ جے سنگھ نے بنوایا تھا۔ جے سنگھ کو علم فلکیات کا بہت شوق تھا۔ ہندستان کے اس راجپوت راجہ نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے صرف جے پور میں ہی ایک بڑی رصد گاہ نہیں بنوائی بلکہ دہلی، متھرا، بنارس اور اجین میں بھی رصد گاہیں تعمیر کرائیں۔ دہلی کا جنتر منتر آج بھی راجہ کے اس شوق کی یاد دلاتا ہے۔
ان رصد گاہوں کے ذریعہ اس دور کے علمائے فلکیات چاند اور ستاروں کی رفتار معلوم کرتے تھے۔ ان رصد گاہوں کے ذریعہ موسم کا پتہ چلایا جاتا تھا۔ وہ اس کی مدد سے ستاروں اور زمین کا فاصلہ ناپتے تھے۔ رات کو چاند کی روشنی اور دن کو سورج کی روشنی کی مدد سے وقت کا اندازہ کرتے تھے۔ عمارت کی کھڑکیاں، دریچے اور دیواروں کے سوراخ خود بخود سال کا پورا کیلنڈر ترتیب دے دیتے تھے۔
قرون وسطیٰ میں ساری دنیا کا علمی اور تعمیری کام مسلمانوں کی علمی اور تعمیری ترقیوں کی نقل ہوتا تھا۔ چنانچہ مہاراجہ جے سنگھ کی رصد گاہ بھی عباسی رصد گاہوں کی نقل تھی۔ وہ ٹھیک اس انداز سے بنائی گئی تھی جیسی خلیفہ مامون رشید نے ایک ہزار سال پہلے بغداد میں بنوائی تھی۔
قدیم دور میں علم کی امامت مسلمانوں کو حاصل تھی۔ چنانچہ ساری دنیا میں ان کے طریقوں کی تقلید کی جاتی تھی۔ مگر بعد کے زمانہ میں ان کی غفلت سے امامت کا یہ مقام مغربی قوموں نے حاصل کر لیا۔ تین سو سال پہلے جب ایک شخص فلکیات کے مطالعہ کے لیے ’’رصد گاہ‘‘ بنانا چاہتا تو وہ بغداد کے نمونہ کی نقل کرتا تھا۔ مگر آج جب کسی ملک میں’’رصد گاہ‘‘ تعمیر کی جاتی ہے تو اس کا نقشہ اور سامان مغرب کے ماہرین سے حاصل کیا جاتا ہے— یہی وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا سفر ختم ہوا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے مسلمان دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔
نوٹ:یہ مضمون علی گڑھ کے آل انڈیا سیمینار بعنوان اسلام اور سائنس (11-12نومبر1980ء) میں پیش کیا گیا۔