ایک مثال
یُوری گگارن(1934-1968ء) ایک روسی خلا باز تھا۔ وہ پہلا انسان ہے جس نے خلا میں سفر کیا۔ اس کا یہ سفر روس کے بنائے ہوئے پہلے خلائی جہاز(Vostok 1) کے ذریعہ ہوا تھا۔12 اپریل1961 ءکو یہ خلائی جہاز زمین سے 187 میل کی بلندی پر گیا۔ خلا میں اس کی رفتار8 ہزار میل فی گھنٹہ تھی۔ وہ ڈیڑھ گھنٹہ میں زمین کا ایک چکر لگاتا تھا۔ یُوری گگارن جب اپنے تقریباً چارٹن کے خلائی جہاز سے کامیاب خلائی سفر کرکے دوبارہ زمین پر اترا تو اچانک وہ عالمی شہرت کا مالک بن چکا تھا:
His spacefight brought him immediate worldwide fame (IV/376).
یوری گگارن(Yuri Gagarin) کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ تاہم اس کی بہت سی یادداشتیں اب بھی چھپی ہوئی موجود ہیں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ گگارن نے اپنے تاریخی سفر سے واپس آ کر جو باتیں بتائی تھیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں نے خلا سے جب زمین کو دیکھا تو میں نے پایا کہ زمین کے اوپر اندھیرے اور اُجالے کا ایک تیز تسلسل (Rapid Succession) جاری ہے۔ یعنی زمین کی سطح پر اندھیرا اور اجالا اس طرح آگے پیچھے چل رہے ہیں جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہوں۔
عجیب بات ہے کہ زمین پررات اور دن کے بارے میں عین یہی تعبیر خود قرآن میں موجود ہے جو انسان کے خلائی سفر سے چودہ سو برس پہلے نازل ہوا تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا(7:54)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: اللہ اوڑھاتا ہے رات پر دن کو، وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا۔
زمین ایک گول کرہ ہے۔ وہ خلا میں ہے۔ وہ اپنے محوز(axis) پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے سامنے گھوم رہی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنا پر زمین کی سطح پر وہ منظر پیدا ہوتاہے جس کو گگارن نے اپنے خلائی مشاہدہ میں ان الفاظ میں بیان کیا کہ— زمین کے اوپر میں نے روشنی اور تاریکی کو تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا۔
بطور واقعہ گگارن کا بیان صد فی درست ہے۔ مگر زمین پر رہ کر کوئی شخص ایسا بیان نہیں دے سکتا۔ زمینی مشاہدہ کسی آدمی کو یہ منظر نہیں دکھاتا، اس لیے زمین پر رہتے ہوئے کوئی شخص یہ الفاظ بھی نہیں بول سکتا۔ یہ منظر کسی آدمی کو صرف اس وقت دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ زمین کی سطح سے 20 ہزار میل اوپر اٹھے اور خلا میں پہنچ کر دوربین کے ذریعہ زمین کا مشاہدہ کرے یہ زمین کو خلا سے دیکھنے والے شخص کے الفاظ ہیں نہ کہ زمین کو زمین سے دیکھنے والے شخص کے الفاظ۔
گگارن سے پہلے کوئی انسان خلا میں نہیں گیا۔ اور نہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں خلائی سواریاں وجود میں آئی تھیں کہ آپ ان کے ذریعہ خلا میں پہنچ کر زمین کے بارے میں ایسا بیان دے سکیں۔ پھر قرآن میں اس سلسلہ میں اتنا واضح اور مکمل بیان کیسے موجود ہے۔ اس کی کوئی بھی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ یہ مانا جائے کہ قرآن کو اتارنے والا ایک ایسا برتر وجود ہے جو اس وقت بھی زمین کے اوپر سے دیکھ رہا تھا جب ابھی کوئی گگارن وجود میں نہیں آیا تھا۔
یہ اور اس طرح کی دوسری آیتیں اس بات کا واضح اور یقینی ثبوت ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے جو دانائے کل ہے، وہ کسی انسان کی تیار کی ہوئی کتاب نہیں۔