غیبی نگرانی
یہ واقعہ نئی دہلی میں 11 فروری 1985 ءکو پیش آیا۔
کناٹ پلیس کے ہوٹل تاج میں ایک تقریب تھی۔ یہ تقریب دہلی کے ایک تاجر مسٹر ایس پی سونی نے اپنے لڑکے کی شادی کے سلسلہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ منعقد کی تھی۔ شرکا کی تعداد تقریباً چار سو تھی جو سب کے سب اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
لوگ تقریب کی رونقوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک خاتون نے محسوس کیا کہ اس کا پرس چوری ہو گیا ہے۔ یہ مسز سنتوش سونی کا پرس تھا۔ اس میں پچاس ہزار روپے نقد رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے اندر ایک قیمتی ہار بھی تھا جو خالص موتیوں کا بنا ہوا تھا۔
چوری کے واقعہ کونہ پرس کی مالکہ نے دیکھا اور نہ دوسرے شرکا اس کو محسوس کر سکے۔ بظاہر یہ مکمل طور پر ایک راز تھا۔ چوری کرنے والا چوری کر چکا تھا۔ اور جس کی چوری ہوئی تھی اس کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا تھاکہ وہ اپنی خوشیوں کو غم میں تبدیل کر کے اپنے گھر واپس چلی جائے۔ حتیٰ کہ ہوٹل کے ذمہ دار یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ چوری کا واقعہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہاکہ یہ بنائوٹی بات ہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہوٹل والوں کی نظر میں یہ قصہ اتنا بے بنیاد تھا کہ انھوں نے اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ ہال کا دروازہ بند کر کے لوگوں کی تلاشی لیں۔
اتنے میں بعض افراد کو خیال آیا کہ شادی کی تقریب شروع سے آخر تک (video film) پر ریکارڈ کی گئی ہے ، کیوں نہ اس کا معائنہ کیا جائے۔
فوراً تقریب کے شرکا اور ہوٹل کے ذمہ داروں کے سامنے ویڈیو ٹیپ چلایا گیا۔ اس سے پہلے تمام شرکا کی نگاہیں زرق برق اسٹیج پر لگی ہوئی تھیں جہاں دولھا اور دلہن رونق افروز تھے۔ مگر اب ان کی توجہ کا مرکز دوسرا تھا۔ جس منظر کو اس سے پہلے انھوں نے صرف تفریح کی نظر سے دیکھا ، اب اس کو انھوں نے تفتیش کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔
بہت جلد لوگوں کی نگاہیں ایک عورت پر جم گئیں جو ایک لڑکے کے ساتھ آیا کے روپ میں ہال کے اندر داخل ہوئی تھی۔ ابتداء میں لوگوں نے یہ سمجھ کرنظر انداز کر دیا تھا کہ وہ معزز مہمانوں میں سے کسی مہمان کے ساتھ آئی ہے۔ مگر اب اس کو ایک امکانی مجرم کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔
یہ عورت جو آیا کے روپ میں آئی تھی وہ اس سے بالکل بے خبر تھی کہ یہاں ویڈیو کیمرہ نصب ہے اور اس کی نظریں ہر لمحہ اس کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ اس کی ہر حرکت کا نہایت باریکی کے ساتھ ریکارڈ کر رہی ہیں۔ وہ مشتبہ انداز میں اِدھر سے اُدھر جا رہی تھی۔
آخرکار لوگوں نے دیکھا کہ اس ’’آیا‘‘ نے شال میں چھپا ہوا اپنا ہاتھ باہر نکالا اور نہایت تیزی سے مذکورہ پرس کو اٹھا کر عین اس وقت اس کو اپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا جب کہ پرس کی مالکہ فوٹو کھنچوانے کے پروگرام میں کھوئی ہوئی تھی۔
جو واقعہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا اس کو ویڈیو کیمرہ کی نگاہ نے بتا دیا جو مجموعی طور پر سارے منظر کی تصویرکشی کر رہا تھا۔ فوراً پولیس بلا لی گئی اور پولیس کے سامنے دوبارہ پوری فلم چلائی گئی۔ جرم ثابت ہو گیا تھا۔ مذکورہ عورت کو پولیس نے تلاش کر کے گرفتار کر لیا۔ اس کا نام اخبار میں شیلا بتایا گیا ہے جو سلطان پوری کی رہنے والی ہے۔ ہندستان ٹائمس (16 مارچ 1985) نے یہ کہانی تفصیل کے ساتھ شائع کرتے ہوئے یہ معنی خیز جملہ لکھا ہے:
You can not only spot the thief
but see her commit the crime
آپ نہ صرف چور کو پکڑ سکتے ہیں بلکہ اس کو جرم کرتے ہوئے دیکھ بھی سکتے ہیں۔
یہ دنیوی واقعہ آخرت کے واقعہ کا آئینہ ہے۔ یہ واقعہ تمثیل کے انداز میں بتا رہا ہے کہ کوئی بالاتر دیکھنے والا ہے جو ہر ایک کو دیکھ رہا ہے۔ وہ ان باتوں کو نہایت باریکی کے ساتھ ریکارڈ کررہا ہے جس کی خبر نہ قریب کے لوگوں کو ہوتی اور نہ دور کے لوگوں کو۔ وہ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جس کو لوگ نہیں جانتے۔ وہ ان چیزوں کو بھی دیکھتا ہے جن کو لوگ نہیں دیکھتے۔
دنیا کے واقعات آخرت کی حقیقتوں کا آئینہ ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ان واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے جو کل کے دن پیش آنے والے ہیں۔ مگر اس مشاہدہ کے لیے بصیرت کی نگاہ درکار ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جو آنکھ والوں کے پاس بھی اکثر موجود نہیں ہوتی۔