تمہید
مذہب اور لامذہبیت کی کش مکش اگرچہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ تاہم پچھلی صدی سے پہلے اس نے کبھی علمی الحاد کی صورت اختیار نہیں کی تھی۔ انیسویں صدی کا فکری انقلاب اور با لآخر ایک طرف ڈارون (1809-1882ء) اور دوسری طرف مارکس (1818-1883ء)کا ظہور انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب کہ الحاد نے یہ کامیابی حاصل کی کہ وہ علمی منطق اور منظم فلسفہ کے زور پر ایک پوری نسل کے ذہن پر چھا جائے اور مذہب کو دفاع کے مقام پر پناہ لینے کے لیے مجبور کر دے۔
الحاد کی ان دونوں لہروں کو الگ الگ سمجھنے کے لیے ہم ایک کو سائنسی الحاد اور دوسرے کو سوشلسٹ الحاد کہیں گے۔ اولاً سائنسی الحاد کو ابھرنے کا موقع ملا اور اس نے دنیا کے تقریباً تمام حصہ کو کسی نہ کسی طرح متاثر کر ڈالا۔ انیسویں صدی کے آخر تک سائنسی الحاد تعلیم یافتہ د نیا کے ذہنوں پر اس قدر چھا چکا تھا کہ کچھ لوگوں کو یہاں تک کہنے کی جرأت ہوئی کہ خدا مرچکا ہے (God is dead)۔ اب ، کم از کم علمی طور پر، اس کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
مگر سائنسی الحاد ’’آزاد دنیا‘‘ کا الحاد تھا اور آزادانہ غور و فکر کی فضا میں جس طرح ایک نقطۂ نظر کو غلط قرار دینے کے مواقع ہوتے ہیں اسی طرح یہ امکان بھی رہتا ہے کہ دوبارہ نئے دلائل کے ساتھ اس کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔ مذہب کے ساتھ یہی ہوا۔ بیسیویں صدی کی پہلی چوتھائی گزری تھی کہ خود سائنس کی دنیا میں ایسی تحقیقات سامنے آنا شروع ہو گئیں جنھوں نے ان تمام مفروضات کو بالکل منہدم کر دیا جن کے اوپر علمی الحاد کی بنیاد کھڑی کی گئی تھی۔ جولین ہکسلے (1887-1975ء) کی کتاب انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے (Man Stands Alone) کے اگلے ایڈیشن کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (1884-1946ء) نے اعلان کیا انسان تنہا نہیں کھڑا ہو سکتا Man does not Stand Alone) )۔
وائٹ ہیڈ (1882-1947ء) اور جیمز جینز (1877-1946ء) نے علمی الحاد کےخلاف جو کروسیڈ شروع کی تھی وہ اب اس نوبت کو پہنچ چکی ہے کہ ساری مغربی دنیا کی نئی نسل میں وہ جوابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس کو غلط طور پر ’’اینٹی سائنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ کائنات کی ملحدانہ تعبیر بے دلیل ثابت ہو گئی۔ عقلی ذرائع سے اخلاقیات کا کوئی معیار تلاش کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ سماجی علوم کسی بہتر انسانی سماج کی تشکیل میں ناکام رہے۔ صنعتی تہذیب انسان کو حقیقی خوشی نہ دے سکی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ساری آزاد دنیا میں مذہب کی طرف واپسی کا رحجان پیدا ہو چکا ہے۔ تقریباً 50 سال کے عارضی وقفہ کے بعد دوبارہ وہ مذہبی دور واپس آنا شروع ہو گیا ہے جو اس سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا۔
مگر سوشلسٹ الحاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ سائنسی الحاد صرف فکری الحاد ہے ، سوشلسٹ الحاد اسی کے ساتھ جبری الحاد۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اشتراکی ملکوں میں کوئی دینی کام کرنا انتہائی دشوار تھا۔ مگر مختلف اسباب کے تحت پچھلے چند سالوں میں حالات کافی بدل گیے ہیں۔ اب روس اور چین میں بھی مذہب کی آزادی تسلیم کر لی گئی ہے اور کم از کم نجی دائرہ میں مذہبی سرگرمیوں کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس طرح اشتراکی ملکوں میں بھی اب ازسرنو دینی کام کے مواقع حاصل ہوگئے ہیں جو اس سے پہلے وہاں حاصل نہ تھے۔ تاہم اس نئے موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ مسلمان اشتراکی ملکوں میں وہ نادانی نہ کریں جو انھوں نے مسلم ملکوں میں کی اور اس کے نتیجہ میں وہ وہاں کے مواقع کو استعمال کرنے سے محروم ہو گئے۔ یہ ہے دینی دعوت کو سیاسی جہاد کے ہم معنی بنانا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سیاست اور حکومتی تصادم سے بچتے ہوئے خالص دینی دائرہ میں اپنا کام خاموشی کے ساتھ کریں۔ اس کے بعد، ان شاء اللہ، حالات میں مزید تبدیلی آئے گی۔ جو چیز مستقبل میں ملنے والی ہو اس کو حال میں پانے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے درخت کے پھل کو درخت کے بیج سے برآمد کرنے کی کوشش کی جائے۔
وحید الدین، 15 نومبر 1989